اکڑ شاہ مال دار ہو گیا
اکڑ شاہ غمگین ہر آن تھا
وہ غربت کے مارے پریشان تھا
وہ بستر پہ اک رات رونے لگا
اسی رونے دھونے میں سونے لگا
اٹھا جب وہ سو کر تو بیمار تھا
بدستور غربت سے بیزار تھا
پرانی سی اک چارپائی تھی بس
بدن پر پھٹی اک رضائی تھی بس
دوا ڈاکٹر سے وہ لینے گیا
دوا ڈاکٹر دے کے کہنے لگا
کہ محسوس مجھ کو ہوئی شے عجیب
بدن میں تمہارے وہ دل کے قریب
ہوئی اس دوائی سے متلی اسے
اچانک ہوئی ایک الٹی اسے
چمکتا سا ہیرا بر آمد ہوا
اکڑ شاہ حیران از حد ہوا
وہ ہیرا اکڑ شاہ نے بیچ کر
کیا حاصل اپنے لیے مال و زر
ہوا ملک بھر میں وہ اب مال دار
ہوا اہل ثروت میں اس کا شمار
وہ اپنی امیری میں یوں کھو گیا
فراموش سب دوستوں کو کیا
گو اسکوٹر اس نے نہ سیکھی کبھی
تجارت نہ کر پایا وہ آم کی
تھے اب اس کی گاڑی میں خدام بھی
وہ کھاتا تھا مہنگے سے اب آم بھی
وہ اب انکساری سے انجان تھا
اکڑ شاہ گویا اکڑ شان تھا
مسہری پہ اک رات سونے گیا
وہ کمبل کی بانہوں میں کھونے گیا
مزے سے وہ سو سو کے جوں ہی اٹھا
عجب سا اک احساس اس کو ہوا
مسہری نہیں چارپائی تھی وہ
وہ کمبل نہیں تھا رضائی تھی وہ
طویل اور اچھا سا یہ خواب تھا
کھلا اب بھی افلاس کا باب تھا
اسامہؔ سے قصے اکڑ شاہ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا واہ کے