عجیب شخص ہے دھرتی پہ آسمان سا ہے
عجیب شخص ہے دھرتی پہ آسمان سا ہے
خدا مقام نہیں پھر بھی لا مکان سا ہے
اگے جو صبح کا سورج تو اک مشین ہے وہ
ڈھلے جو شام تو پھر جسم کی تکان سا ہے
سکوت دشت تمنا ہے اس کو جائے پناہ
نواح عارض و گیسو میں بے نشان سا ہے
برہنہ رہتا ہے شمشیر بے اماں کی طرح
ہر ایک شخص یہاں اس سے بد گمان سا ہے
اٹھا نہ پائے گا یک لمحۂ نشاط وجود
وہ اپنی تیغ نفس سے لہولہان سا ہے
نگاہ دار فلک تا فلک رہا وہ کمالؔ
اور اب زمین پہ ٹوٹی ہوئی کمان سا ہے