عجیب سکھ
جس کلی کو چمن کی زینت کے لئے بنایا گیا وہ دھوپ میں جھلس رہی ہے۔ سرمئی آنکھوں کی شراب ، چمپئی رخساروں کا رس سورج کی آتشی کرنیں پی رہی ہیں ۔ جن ہاتھوں کو مہندی کے سرخ رنگ سے مزین کرنے کے واسطے بنایا گیا تھا وہ مفلسی کا با ر اٹھانے پر مجبور ہیں ۔مانو قدرت نے قوت گویائی چھین کر موسیقاروں کی بستی میں بھیج دیا ۔
چچی آپ زیادہ پریشان نہ ہوں اس کی زندگی پہلے سے بہتر کٹ رہی ہے ۔ وہ اس وقت دوحہ میں ہے ۔ میں نے جب اسے دیکھا تو آنکھوں پر یقین نہیں آیا کہ یہ یہاں کسیے ؟ مگر جب قریب سے دیکھا تو واقعی نصیبن ہی تھی ۔رافعہ نے کہا ۔
بہنی انور بابو تو کہت رہیں کہ انڈونیشیا میں ترکاری بیچت ہی۔
’’ارے نہیں چچی وہ دوحہ میں ہے ‘‘
’’ کاکری کبھی کوئی کچھ کہت کبھی کچھ ککرے بات پہ یقین کری ہمکے تو کوتو مطلب ناہی بس یہی دونوں لڑکن کے چھوڑ گئی ہی ہمرے سر کے بوجھ ہیں۔ اپنا تو کھو ب الم گلم مارت ہی ‘‘
یاخدا تیری قدرت کا کیا کرشمہ ہے؟ لوگ جس درد کا تذکرہ اتنی تلخی سے کرتے ہیں کاش اسے محسوس کرکے آزماتے ، اس کے اپنوں نے درد کو نہیں پہچانا ایسی صورت میں تو مایوس ہونا لازم تھا ۔ اس کی زندگی بہتر کٹ رہی ہے ؟؟
اس کی زندگی اچھی کٹ رہی ہے ؟؟؟؟
m
محرم کا چاند نکل آیا تھا ۔یا حسین یا علی کی صدائیں گونجنے لگی تھیں۔ پورا علاقہ ماتم کناں تھا، اس کی مانگ سونی ہوگئی ہاتھوں کی چوڑیاں بکھر گئیں ، پیروں کے گھنگرو اتر گئے لبوں کی سرخی نیلاہٹ میں تبدیل ہوگئی ۔ ننکو ، چنکو یتیم ہوگئے ۔ زندگی کی خوشیاں اندھیری رات کی تاریکی میں سمٹ گئیں ۔ غم کے بادلوں نے آگھیرا ۔
دستک کے بغیردروازہ کھلا .. اس کا سسر اندرآیا ۔
وہ دودھ پیتے چنکو کو چھاتیوں سے الگ کر کے جھٹ سے اوڑھنی اوڑھ کر کھڑی ہوگئی۔
’’ہم سوچ رہے ہیں کل تم کو تمہارے مائکے بھیج دیں ماں بہنوں کے ساتھ رہ کر تمہارا غم ہلکا ہوجائے گا ‘‘
ناہیں اباجی ہم ٹھیک ہیں ہم اپنا گھر چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے ‘‘
’’اری دلہن میری مانو تو تمہارا مائکے جانا ٹھیک رہے گا‘‘
گورکھپور سے پیسنجر ٹرین کا ٹکٹ لے کر وہ بلرامپور کے لئے روانہ ہوگئی ۔
’’اماں کیلا خرید دو، اماں مونگ پھلی والا آرہا ‘‘ دونوں بچے چلارہے تھے ایک عورت نے ٹہو کا دیا رات بھر سوئی نہ کا، دیکھ بچہ کامانگ رہا ہے ۔ ایک لڑکی گردن میں ڈھولک ڈالے تان لگارہی ہے ۔
جی دکھتاہے کیسے توڑوں ...چھوٹی چھوٹی ننھی ننھی پیاری کلیاں ‘‘
نصیبن سرجھکائے دوپٹہ سے منھ لپیٹے بیٹھی تھی ۔ لڑکی نے کہا ’’ کاہے سرنیہوڑائے بیٹھی ہیو ؟گانا سنائے ہن کچھ تو دے دیو‘‘۔
وہ کہاں سے دیتی اب خود دوسرے کی نوازشوں کی محتاج تھی ۔ ٹرین بلرامپور پہنچ گئی اس کی اماں اسٹیشن پرکھڑی انتظار کررہی تھیں قسمت کے شکنجوں سے مجبور فاقہ کے اثر سے چہرہ مرجھایا ہوا تھا دنیا کی بے مہری کا تماشہ آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں ۔
پورے محلے میں تہلکہ مچ گیا‘‘ نصیبن آئی ہی‘‘ دالان رونے کی صداسے گونج رہا تھا اس کی دادی جوان پوتی کے بیوہ ہونے پر غم کی تاب نہ لاکر بے ہوش ہوگئی۔ افلاس کے آرے باپ کے جگر کو چھلنی کررہے تھے غم سے نڈھال ہوکر دیوار کا سہارا لینے پر مجبور تھا ،بہنوں نے سفید چادر ہٹاکر اسے اماں کا دوپٹہ اڑھا دیا ۔
چار مہینے گزرگئے سسرال سے کوئی خیر خیریت لینے نہیں آیا ۔
دونوں بیٹے دادا کو بہت یاد کرتے ہیں ‘‘ ہری رام پی، سی ، او پر فون آیا ہے نصیبن کو بلارہے ہیں ۔
’’ہاں بہو تم ایسا کرو کہ اپنی ماں کے پاس ہی رہو یہاں آکر کیا کرو گی کون تمہاری دیکھ بھال کرے گا وہاں تو سب تمہارے ہیں یہاں پر کون سہارا ہے ؟اور مہینہ دو مہینہ پر روپیہ بھیج دیا کروں گا ۔
’’ارے دوئی سال ہوگوا روپیہ کے نام پر چونی نائی آوا ۔ ایکر سسر سار کل بازار میں ملارہا ‘‘ کہت رہا کچھ حصہ نصین کے نائی دیب‘‘
پردھان جی کہہ رہے ہیں سسرال والوں سے اپنا حصہ لینے کے لئے مقدمہ لڑنا پڑے گا مگر بہت روپیہ لگے گا۔آپ لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے ، اماں کہاں تک پورے گھر کو سنبھالیں ۔ ایک طرف ابا کی بیماری دوسری طرف جوان جوان بہنوں کی شادی ، ننکو ، چنکو بھی اسکول جانے لائق ہوگئے ہیں ۔ان میں اتنی استطاعت ہے نہیں کہ انھیں اسکول بھیجیں ۔
کہاں تک بیتے دنوں کا سوگ مناتی دکھ درد کو دامن میں سمیٹے آنکھوں میں ا داسی لئے زندگی بسر نہیں ہوگی ..........
بکریاں چراتے چراتے جنگلوں سے لکڑیاں ڈھوتے ڈھوتے پیروں میں چھالے پڑگئے ۔مسالہ پیستے پیستے اس کے ہاتھوں میں گٹھے پڑگئے پھر بھی سکون کی روٹی میسر نہیں۔ بے حسی نے احساس کو ختم کردیا ،کنکروں پتھروں پر بھی نیند آجاتی ہے۔
پھر بھی پورے خاندان کی نظر اسی پرہے کہ’’ کیسے ان گڑھے موٹی ہوتی جارہی ہے آنکھوں میں پانی اترآیا نہ تو شرم باقی ہے نہ کسی کا لحاظ دن بھر ادھر اُدھردندناتی پھرتی نہ جانے خدانے کس مٹی سے گڑھ اہے ۔
اماں کہہ رہی ہیں ‘‘ نصیبن اپنے لڑکن کے سمھار( سنبھال) لے اہر اُوہر (ادھر ادھر) چوری چند الئی کرت ہیں عمر بھیا کے بگیامیں سے آم چرائے لائن ہیں ورہنا دیت رہیں ‘‘
بڑی امی طعنے دے رہی ہیں‘‘ ارے رانڈ بیٹی کو سر پر بیٹھا کر دھندا کروارہی ہے‘‘خود جیسی تھی بیٹی کو بھی ویسا بنادیا ‘‘
قسمت نے اماں کے ساتھ بھی بڑے کھیل کھیلے ہیں ،جب فساد ہوا تھا تو نصیبن پیٹ میں ہی تھی بھاگم بھاگ مچا تھا کوئی کسی کا پرسان حال نہیں تھا اماں ڈھاکے چلی گئیں تھیں ایک سال تک عبدالصمد نام کے قصائی کے یہاں رہ آئیں جب معاملہ ٹھنڈا ہوا تو ابا کے بڑے رونے دھونے پر حاجی چاچا اماں کو لے کر آئے تھے اماں کہتی ہیں کہ عبدالصمد نصیبن کے پیدا ہونے پر بڑا خوش ہوا تھا۔ اپنی بیٹی کی طرح پیار کرتا تھا اماں جب واپس آرہی تھیں تو عبدالصمد بڑا جذباتی ہوا تھا ۔
تب سے ان کے ساتھ یہ جملہ لگ گیا کہ ارے سات مردوں کا مز ا چکھی ہوئی ہے تو ایک مرد پر کیسے دل ٹکے گا۔ بیٹی بھی اسی پانی پر گئی ہے ۔
سہرن کی اماں کہہ رہی ہیں اچھا برا دیکھ کر بیٹی کی کہیں شادی کردو تمہاری عمر بھی ڈھل رہی ہے ہر طرف سے تمہیں طعنے ملتے ہیں کہ رانڈ بیٹی کو بٹھائے ہے۔ چنکو اتنا بڑا ہوگیا ہے اگر چاہتی تو چپنی فیکٹری میں بھیج دیتی روز کا سو دو سو کما کر آتا 12سال کا ہوگیا مگر وہی 2 سال کے بچے کا دلار دیتی ہے ۔
سلیم بھائی یہاں کی کوٹھی چھوڑ کر کا ٹھمانڈو میں رہنے لگے ہیں ،وہاں بڑابھار ی مکان بنوایا ہے، اتنا سندر ہے کہ دیکھو تو پلک نہ جھپکے ،دو بیٹے ہیں ایک مبارکپور میں ساڑیوں کا کاروبار کرتا ہے دوسرا بیٹانا ئجیریا میں بیوی بچوں سمیت رہتا ہے ۔ سلیم بھیاکی بیوی بھی کبھی نائجیریا میں رہتی ہیں تو کبھی ممبئی میں بیٹی کے ساتھ ۔ اور سلیم بھیاکا ممبئی میں بھی بڑا نام ہے کر لا میں ایک بلڈنگ ان کے نام پرچلتی ہے اور ممبرا میں سیٹھ کہے جاتے ہیں یہاں جب بھی آتے ہیں تو پورے محلے والوں کے لئے کچھ نہ کچھ تحفہ ضرور لاتے ہیں بڑے دلدارہیں روپیہ پانی کی طرح بہاتے ہیں ۔
موصوف کی اس قدر قصیدہ خوانی کا مقصد نصیبن سمجھ نہیں پائی ۔
’’نصیبن کی اماں فیصلہ کر کے تم بتاؤ کیا کہہ رہی ہو؟ اور دیکھ نصیبن تم تو مطلب سمجھ ہی رہی ہوگی میں کیا کہنا چاہ رہی ہوں ؟
پیشانی پر بل ڈالتے ہوئے نصیبن نے کہا: چچی میں نہیں سمجھی۔
ارے پگلی! ذرا قریب آکر پھسپھسائیں ۔
سلیم بھیا آئے تھے تو کہہ گئے تھے کہ کوئی عورت تلا ش کردو جو اچھی ہو،ا ماں کی دیکھ بھال کرے ۔ بڑا اچھا موقع ہے تم چلی جاؤ بہت عیش کی زندگی ہوجائے گی ۔ کوئی زیادہ کام وام نہیں کرنا پڑے گا پورا گھر تو باہر رہتا ہے صرف سلیم بھیا گاہے بگا ہے آجاتے ہیں گھر کی صفائی دیکھ بھال کے لئے تو نوکر لگے ہوئے ہیں بس کل ملاکے ان کی اماں کو ذرا سا سہارا دیناہے ۔
لیکن چچی اپنے بچوں کو چھوڑ کر نہیں رہ پاؤں گی ۔
تو ٹھیک ہے، چھوٹے والے کو لے جانا اور بڑے والے کو تو یہیں کسی فیکٹری میں بھرتی کردو۔
رات کا آخری پہر بھی بیت گیاستاروں کی آنکھیں بند ہونے لگیں آسمان پر سفر کرتا چاند بھی دیکھتے دیکھتے اپنی منزل پر پہنچ گیا ۔بے خواب آنکھوں کے سامنے آنے والے لمحوں کی کشمکش گردش کررہی تھی ۔اس کھوکھلی زندگی میں کتنے موڑ آ ئے ۔۔ پہلے بیٹی پھر بیوی ، پھر اب کسی کے محل کی نوکرانی کوئی مداوا نہیں پورے وجود پر بے بسی کی چادر لپٹی ہوئی ہے ۔
m
نصیبن کو کا ٹھمانڈو گئے ہوئے چھ مہینے ہوگئے ۔سلیم کی ماں بڑی شفیق ثابت ہوئیں ۔ کاموں کا زیادہ بوجھ نہ ڈالتیں ،بچے کو بھی پیار کی نظرسے دیکھتیں ۔شام میں پہاڑیوں کی سیر کو جاتیں تو ساتھ لے جاتیں ایک دو بار تو دوسرے والے بیٹے چنکو کو بھی پوچھا اوراسے یہاں بلانے پر مصر تھیں۔
ایک دن انہوں نے کہا ۔ نصیبن بیٹی میں دودن کے لئے پوکھراجارہی ہوں مجھے تم پر پورا بھروسہ ہے کہ گھر کا خیال رکھو گی تمہارے سہارے چھوڑ کے جارہی ہوں ۔ اور اگر کوئی ضرورت پڑے تو پیسے رکھ لو کسی نوکر سے منگوالینا ۔
کس قدر نیک منش خاتون ہیں ۔ نیک دل ہستیوں میں دہر کی محسوب !
انہوں نے نصیبن کو پورے مکان کی نگہبانی تو سونپ دی مگر اس کی پاسبانی کرنے والا کوئی نہیں رہا کب تک تلخی زمانہ سے خود کو بچائے رکھتی آخر کار ننھی سی لہر کو موجوں نے آکر گھیر ہی لیا ۔ رات گہری ہوچکی تھی بجلی کی کڑک سے نصیبن کی خواب آگیں آنکھیں کھل گئیں۔ بادلوں کی گڑگڑاہٹ سے خوف کھا کرننکو ماں کے سینے سے چمٹ گیا دروازے پر دستک ہوئی خو ف کے مارے پورا بدن سن ہوگیا ۔ آخر اتنی رات گئے کون آیا ہے ؟
دروازہ کھولا تو سامنے سلیم سیٹھ کھڑے تھے ۔
نصیبن نے یکلخت پوچھا ’’بھیا کوئی کام ہے کیا ۔‘‘
بس تمہیں دیکھنے آیا تھا ۔
نصیبن کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ اپنی شرافت اور عظمت کا لباس اتار کر درندگی کا لبادہ اوڑھ کر آئے ہیں۔
انہوں نے اس کی سونی کلائیوں کوپکڑ لیا اور قریب کرتے ہوئے کہا ۔
یہ جوبن میرے لئے جان لیوا ہے۔ نصیبن !خود پر قابو کرتے کرتے ٹوٹتا جارہاہوں ،دن کا چین راتوں کی نیند تمہارے خاموش ہونٹوں نے چھین لی ہے ۔تمہارے جسم کے دل�آویز خطوط میرے ذہن سے ہٹتے نہیں ۔اتنا کہتے کہتے انھوں نے نصیبن کو ۔۔۔
چیخنے کے لئے لب کھلے ہی تھے کہ بے بسی کے تالے نے انھیں بند کردیا زبان گنگ ہوگئی دہشت سے پورا بدن کانپنے لگا ۔
نگار عصمت وعفت ، مقیم جلوہ گاہ راز آوارہ رسوا ہوگئی ۔
صبح ہوئی تو آنکھیں مثل شفق سرخ ہورہی تھیں ،ضبط غم سے دل ریزہ ریزہ ہورہا تھا ،دردسے سر پھٹا جارہا تھا اور ہونٹ سوجے ہوئے تھے ۔
یا خدا اس ذلت کی روٹی سے تو بہتر ہے کہ موت آجائے اس کے سینے سے بے بسی کا دھواں اٹھ رہا تھا ۔
نوکر نے آکر بتایا کہ سلیم سیٹھ جی بلرامپور جارہے ہیں اگر کوئی خبر بھیجوانا ہے تو بتادو‘‘
اس نے نفی میں سر ہلایا۔
چنکو ہوٹل میں برتن دھوت بھیا ۔ اور اپنے ماں کے لیے بہت روت ہے نصیبن کیسن ہے ٹھیک ہے کام وام کرت ہی کہ ناہیں ۔
وہاں اسے کوئی تکلیف نہیں ہے ۔ صرف امی جان کی دیکھ بھال تو کرنا ہے ۔ سلیم سیٹھ نے کہا ۔
’’بابو چنکو ا کے اب کی کاٹھمانڈو لیے جاؤ‘‘
چھوٹے سیٹھ جی باہر رہتے ہیں بہو آفس جاتی ہیں ان کے بچے کو کوئی دیکھنے والا نہیں ہے فون کیا تھا کہ کوئی مل جائے تو بھیج دو اسی لئے میں سو چ رہا ہوں اسی کو بھیج دوں ‘‘
’’ناہیں سیٹھ جی اتنا دور نائی رہ پائی‘‘ اچھا ایکر فوٹو لے جاکر نصیبن کو دے دیو‘‘
’’میں آج تو باہرجارہا ہوں ایسا کرو کہ ملازم جو میرے ساتھ آیا ہے اس کے ہاتھ سے بھیج دو ‘‘ اور ایک ہزار روپیہ رکھ لو بچوں کے لئے کپڑے وغیرہ لے لینا ۔میں چلتا ہوں ۔
سلام الیکم بھیا۔ جلدی آئیوتہرین کے بنا بلام پور (بلرامپور)سون لاگت ہے ‘‘
سورج کی سنہری کرنیں زمین پر آخری ضرب لگاتے ہوئے بلند وبالا پہاڑ کی چوٹیوں کے عقب میں چھپنے لگی تھیں سارے ملازم اپنے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے دوسرے دن سلیم کی ماں واپس آنے والی تھیں ۔سلیم سیٹھ گاؤں جاچکے تھے ۔نصیبن نے موقع غنیمت سمجھا اور بچے کو ڈاکٹر کے یہاں لے جانے کا بہانہ کر کے نکل آئی ۔اس طرح گھٹن زدہ ماحول سے نکل کر اس نے سکون کی سانس لی ۔لیکن باہر آنے کے بعد نہ تو کوئی اس کی زبان سمجھ رہاتھا نہ ہی یہ بتا نے والا تھا کہ کون سی گاڑی اسے اپنے گھر پہنچائے گی تھوڑی دیر ادھر اُدھر چکر کاٹنے کے بعد ایک شخص نے اپنی ٹوٹی پھوٹی ہندی میں بتایا کہ یہاں سے دائیں ہاتھ مڑ کر دکھن میں بس اسٹینڈ ہے وہاں سے اسے گاڑی مل جائے گی ۔
صبح سویرے سلیم کی ماں پوکھراکی سیر سے واپس آگئیں گیٹ کیپر نے بتایا کہ نصیبن شام میں ہی نکلی تھی واپس نہیں آئی ۔ سلیم سیٹھ بھی دوسرے ہی دن باخبر ہوگئے کہ وہ بھاگ گئی۔ وجہ تو معلوم ہی تھی مگر پھر بھی سارے نوکروں کو ڈانٹا پھٹکارا ایک مہینے کی تنخواہ ضبط کرلی ۔
خوف کا پرندہ سر پر منڈلارہا تھا ۔گھر پہ چھوٹی بہن کی شادی کی تیاریاں ہورہی ہوں گی سوچا تھا نئے کپڑے اسی کو دے دوں گی ۔ نصیبن نے سوچا ۔
آنکھوں میں سرمہ بھرے ہاتھ میں تسبیح لئے سہرن کی اماں داخل ہوئیں ،سنا ہے نصیبن کا ٹھمنڈو سے بھاگ آئی ہے ‘‘ ارے یہ کیسی عورت ہے ایک در پر سکون نہیں رہتا وہاں پہ نہ کچھ کر نانہ دھرنا صرف بیٹھ کے روزہ نماز کرناتھا تو کیسے رہ لیتی، اس گلی اس گلی گھومنے کو نہیں ملتا رہا ہوگا ادھر اُ دھر نظارہ بازی کا موقع نہیں ملتا ہوگا۔ سہرن کی اماں چپ ہونے کانام نہیں لے رہی تھیں ۔
آپ صحیح تو کہہ رہی ہیں چھوٹی بہن کی شادی ہونے والی ہے ۔بوبو نے آس پاس کے گاؤں سے مانگ جانچ کے جہیز کا انتظام کردیا ہے ۔صرف باراتیوں کے کھانے کا انتظام کرنا رہ گیا تھا۔ امید تھی کہ سلیم سیٹھ سے مانگنے پر فوراً مل جائے گا مگر اس مردانی نے تو بہن کو بھی اپنے ساتھ برباد کردیا۔ بھاگ کر چلی آئی کس منھ سے ان کے سامنے ہاتھ پھیلانے جائیں گے ۔ تائی اماں نے کہا ۔
سنجو کو مہندی لگ رہی ہے ۔ ڈھولک لئے لڑکیاں گارہی ہیں’’ہاتھ پہ کچھ مہندی کی لالی .... ارے ہاتھ پہ کچھ مہندی کی لالی کچھ ساجن کا پیار ۔ صندل ایسی پیشانی پر ۔ ہورے صندل ایسی پیشانی پر ... بند یالائی بہار...بندیا لائی بہار ۔
اوئے ہوئے کل باراتیوں کے ساتھ دولہے راجہ آئیں گے اور دلہنیا کو اڑاکے لے جائیں ۔
یہی سماں تھا جب سسرا لیوں کی طرف سے مہندی آئی تھی۔ نندیں گارہی تھیں بیتے دن سوکھے پتوں کی طرح بکھرگئے۔ نصیبن کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے ۔
لگ رہا ہے نصیبن میری پگڑی اترواکے رہے گی ۔کھانے کا انتظام کہاں سے کروں ؟
’’یہ تو ابا کی آواز ہے۔ اس کے وجود کے اتنے ٹکڑے ہوگئے کہ سمیٹنے کے قابل نہیں رہی وہ خشک آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر لئے بیٹھی تھی اس کے کرب کو کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا ایک طرف گھر والوں کی عزت کی لاج دوسری طرف اپنی عصمت کا سودا۔ ٹوٹتے بکھرتے رشتوں کے خاطر اسے یہ قربانی دینی ہی تھی ۔
m
سورج مغربی افق کی جانب جھکتا چلا جارہا تھا۔ ترسولی ندی کے کنارے دور دور تک سورج مکھی کے زرد پھول اس کے زخموں کی طرح لہلہا رہے تھے، کہیں کہیں پہاڑوں کے دامن میں بڑے بڑے جھنڈ کی شکل میں پھولوں کے گچھے اوپر سے گلابی اور نیچے سے سفید آسمان کے رخ پر پیالوں کی طرح منھ کھولے کھڑے تھے ۔ لہروں کے شور کے علاوہ پوری فضا خاموش تھی ۔ جیسے جیسے کاٹھمانڈو قریب آتا گیا اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی گئی۔
سیٹھ صاحب مجھے معاف کردیجئے غلطی ہوگئی ۔بنا بتائے بھاگ گئی خدا کے لئے باراتیوں کے سامنے میرے باپ کی عزت رکھ لیجئے آپ جیسا کہیں گے میں ویسا ہی کروں گی ۔میںآپ کی ۔۔۔۔۔
تیز آری سے اس کا وجود کٹتاچلا گیا ۔
’’ٹھیک ہے انصاری ہوٹل فون کردیتا ہوں ‘‘ سلیم سیٹھ نے کہا ۔
سجوکی شادی ہوگئی دلہن بن کے سسرال چلی گئی ۔ اماں نصیبن کو بددعائیں دے رہی ہیں ۔
’’کرم جلی نہ جائے کہاں سے ہمرے کوکھ میں جنم لے لیہس رہا پہلے تو وہاں سے بھاگ آئی سادی میں اڑنگا ڈالس اور پھر نہ جانے کے کردیوانی رہی سادی کے دن پھرار ہوئے گئی ۔ اللہ کری تو سکھ کے دانہ نصیب نہ ہوئی اللہ تعالی انصاری ہوٹل والے کے بہوت کچھ دیءں کہ باراتن کے کھانا کھلائے دہن‘‘
پورے علاقہ میں خبر پھیل گئی کہ نصیبن بھاگ گئی۔اس نے کسی سے شادی کرلی ہے ۔ ببلو بابو کہہ رہے کہ دلی میں نظر آئی تھی ، شبیر پر دھان کہہ رہے کہ دبئی میں مصری کے ساتھ رہتی ہے ۔ جتنے منھ اتنی باتیں سننے میں آرہی ہیں ۔
m
رافعہ کی ریسرچ ’’عرب کے صحراؤں میں کھیتی باڑی کے امکانات ‘‘پر ہے ۔ اس لیے وہ مختلف عرب ممالک کے دورے کر چکی ہے پچھلا سفر اس نے قطر کا کیا تھا۔قطر کے ریگستانی سفر کے دوران ایک دن اس کی ملاقات ایک بوڑھے اونٹ سوار سے ہوئی ۔ اس کاسفیدعمامہ اور چاندی کی طرح سفید داڑھی گرد آلود تھی اور وہ اونٹ کی نکیل کھینچ کر تیزی سے ہانکنے کی کوشش کررہا تھا ۔بلبلاتے ہوئے اونٹ نے اپنی رفتارتیز کردی۔ پھر وہ دریا کے کنارے پہنچا گھاٹ پر اونٹ کو پانی پلایا اور خود بھی نیچے اترکر گھٹنوں کے بل ریت پر بیٹھ کر چلو سے پانی پیا۔
دریا کے کنارے ایک کھلے اور وسیع میدان میں لکڑی کی شہ نشیں کے اوپر اطلس کے شامیانے لہرار ہے تھے ۔رافعہ وہیں بیٹھی سارے مناظر دیکھ رہی تھی ۔تھوڑی دیر بعد وہ بوڑھا بھی سستانے کے خاطر وہاں آگیا ۔
بوڑھے شخص نے رافعہ کا حلیہ دیکھ کر اس کے متعلق دریافت کیا ۔رافعہ نے اپنے مقصد کی وضاحت کی ۔ بوڑھے شخص نے بتایا کہ وہ بھی سیاحت کی غرض سے یہاں آیا ہے اس کے آباء و اجداد بغداد کی سرزمین سے تعلق رکھتے تھے مگر جب ہلاکو خاں نے اس ملک کو تباہ وبرباد کردیا تو انھوں نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی۔ اور اب میں اپنے آباء و اجداد کی نشانیاں تلاش کر نے یہاں آیا ہوں ۔
رافعہ نے کہا میرا اور آپ کا مقصد ایک ہی ہے کیا آپ میری مددکریں گے۔ اس نے کہا ضرور۔
اس نے بتایا کہ میں یہاں نہیں ٹھہر سکتا کیوں کہ مجھ پر ایک دو شیزہ کی ذمہ داری ہے وہ اپنے مالک سے تنگ آکر دریائے دجلہ کے بادبانوں کی خدمت گزاری کررہی تھی میں نے اسے اپنی پناہ میں لے لیاہے ۔ اس کا مالک اسمگلروں کا سرغنہ ہے اور پورے سال مختلف ممالک کے سفر کرتا ہے بڑاعاشق مزاج عیاش ہے، اس دو شیزہ کو ساتھ رکھتا ہے لیکن جب بیرون ملک جاتا ہے تو یوروپی لڑکیوں سے معاشقے کرتا ہے، اس غریب کو اکیلے شہر میں چھوڑ کر مہینوں غائب رہتا ہے اور اپنے جاسوسوں کو اس کے پیچھے لگا دیتا ہے اس کی غیر حاضری میں ہمیشہ وہ بھاگ کر کسی نہ کسی کرم فرماکے سائے میں پنا ہ لیتی ہے اور جاسوس اس کاسراغ لگالیتے ہیں مگر اس بار میں اس مظلوم کو خبیث کے چنگل سے آزاد کرا کے رہوں گا باتیں کرتے ہوئے وہ دونوں بل کھاتی ہوئی پگڈنڈی پر پہنچ گئے ۔
اس نے بتایا کہ اس کا خاندان مختلف ملکوں لبنان، سیریا ، کویت ، قطر وغیرہ میں مقیم ہے اس لئے وہ ان جگہوں کی سیر کرچکا ہے اور ان کے ریگستانی زمینوں میں کن چیزوں کی فصلیں اگائی جاتی ہیں اس کے متعلق بھی کافی معلومات ہے ۔
رافعہ بہت خوش تھی ۔بوڑھے نے کجاوے کی پشت پر ٹیک لگاکر اونٹ کی رفتار تیز کردی اور گانے لگا بوڑھے کی جوان اور توانا آواز میں تانت کے باجے کی طرح سوزو فریاد کرنے والی شہنائی جیسا مغموم انداز تھا۔ رافعہ کو محسوس ہوا کہ اس کی آواز سے فضائیں وادیاں اور دریاؤں کی لہریں رقصاں ہوگئی ہیں ۔
سورج غروب ہونے سے پہلے دونوں سرائے پر پہنچ گئے۔ آبنوس کی کرسی پر بیٹھی ایک لڑکی دیوار پر آویزاں تصویر کو دیکھ رہی تھی ۔ تاریکی اپنے پنکھ پسارنے لگی تب اس لڑکی نے اپنی چادر ہٹائی اور خالص ہندوستانی انداز میں آکر کہا۔
السلام علیکم ۔
رافعہ انگشت بدنداں رہ گئی ۔