اے مکاں یاد ہے کچھ تیرے مکیں کیسے ہیں
اے مکاں یاد ہے کچھ تیرے مکیں کیسے ہیں
تجھ میں بستے تھے کبھی اور کہیں کیسے ہیں
بام پر چلتی ہوا چاند ستارے بادل
ڈھونڈتے پھرتے ہیں وہ سارے حسیں کیسے ہیں
ان دریچوں میں جو چلمن سے لگے رہتے تھے
جلوہ آرا ہیں کہاں پردہ نشیں کیسے ہیں
جن کی زلفوں میں سر شام مہک رہتی تھی
دل ربا سرو قد و خندہ جبیں کیسے ہیں
پھول گرنے کا سماعت کو گماں ہوتا تھا
خوش گلو اور خوش اندام نگیں کیسے ہیں
رات کے پچھلے کناروں پہ درختوں کے تلے
شعر کہتے تھے سناتے تھے وہیں کیسے ہیں
اب تو اخبار میں چھپتے ہیں مراسم ان کے
ہم سے ملتے تھے کبھی قبل ازیں کیسے ہیں