اگر تجھ سے ہوں تو پھر اور کیا ہوں

اگر تجھ سے ہوں تو پھر اور کیا ہوں
میں کس جیسا ہوں کس کس سے جدا ہوں


مجھے معلوم ہے کتنا برا ہوں
یہ کیا کم ہے کہ اپنا آئنہ ہوں


کوئی دیوار سی ٹوٹی ہے شاید
میں اندر ہی کہیں گرنے لگا ہوں


کبھی تو سامنے آؤں گا اپنے
کہ اپنی راہ میں کب سے کھڑا ہوں


مجھے احساس نے گھیرا ہوا ہے
میں اپنے آپ اپنا دائرہ ہوں


یہ میرا ہاتھ کس کے ہاتھ میں ہے
یہ کس کے پاؤں ہیں جن پر کھڑا ہوں


مرے الفاظ پتھر ہو گئے ہیں
میں اپنے ہاتھ سے زخمی ہوا ہوں


خود اپنے آپ کو آواز دے کر
نہ جانے اشکؔ کس کو ڈھونڈھتا ہوں