زندگی چلتی رہتی ہے!

            حاشر قدرے متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ گھر کے مالی حالات کمزور تھے اس لیے یونیورسٹی  کے اوقات کے بعد ایک آن لائن سٹور  کے لیے اسے کام کرنا پڑتا تھا۔ گو کہ حاشر کا تعلیمی ریکارڈ کوئی متاثر کن نہیں تھا لیکن اس کے  ہاتھ جو بہت سے تکنیکی کاموں میں مہارت رکھتے تھے اس کی شخصیت کا ممتاز پہلو  تھے۔ وہ خاموش طبع انسان تھا اور خاموشی سے  اپنے کام میں مگن رہنا پسند کرتا تھا۔ یہ اس کی شخصیت کا مثبت پہلو تھا یا منفی، اس بات کا فیصلہ مشکل ہے۔ بس یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ خاموشی اس کے اندر گھل چکی تھی بالکل سرد راتوں میں سناٹے کی طرح۔ مگر یہ خاموشی اس کی شخصیت کو ویران  نہیں کرتی تھی، بس سنجیدہ بنا دیتی تھی۔  دل میں کئی آرزوئیں لیے اور خاموش آنکھوں میں کئی خواب سجائے، وہ  ایک خاموش جدوجہد سے عبارت تھا۔

ایک گھر کی مالی کمزوری تھی جو اسے کبھی کبھار پریشان کرتی اور وہ اسے بہتر بنانے کی  اکثر تدبیریں تراشتا۔  اسے لگتا جیسے اس کمزوری نے اس کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔ وہ اڑنا چاہتا ہے لیکن اس کے پر کٹے ہوئے ہیں۔  دو بھائی اور دو بہنیں تھیں ، ماں  باپ تھے اور خاندان والے۔ وہ سب کے بارے میں سوچتا لیکن بہت کم ہوتا کہ وہ   اس کا   اظہار کرتا۔  بسا اوقات یہ اظہار اتنا کم ہوتا کہ اس کے بارے میں تاثر بننے لگتا کہ وہ خود غرض ہے، لیکن پھر اس کا   کوئی محبت  اور خلوص بھرا اقدام ہر منفی تاثر کو دھو  ڈالتا۔ وہ کہنے کی بجائے کرنے پر یقین رکھتا تھا۔  اب وہ یونیورسٹی کے تین سال گزار کر گریجوایشن کے آخری سال میں داخل ہو چکا تھا۔ اس کا خواب تھا کہ وہ ماسٹرز کے لیے  کسی انٹر نیشنل یونیورسٹی میں جائے لیکن اس کے لیے  ایک اچھی خاصی رقم درکار تھی۔ اس کے علم میں ایسے کچھ سکالرشپس  تھے ایسے جو اس کی خواہش کی تکمیل کرسکتے تھے،  پھر بھی دو چار لاکھ تو چاہیے ہی تھا اسے۔

ایسی ہی ایک کوشش اس نے ایک تدبیر کی صورت کی۔  یونیورسٹی کے آخری سال حکومت کی طرف سے  اسی ہزار روپے وظیفہ ملا۔ اس نے سوچا کہ اگر اسے کسی کاروبار میں لگایا جائے تو منافع آنے کی صورت میں کچھ نہ  کچھ رقم کا انتظام ہو سکتا ہے۔ اگرچہ یہ  رقم کاروبار کے لیے  بہت ہی کم تھی لیکن پھر بھی وہ کچھ نہ کچھ کرنا چاہتا تھا۔ اوپر سے کوئی ایسا کاروبار بھی مل نہیں رہا تھا جہاں وہ اس قلیل رقم کو لگا سکے۔ بسا اوقات وہ پلٹ کر گھر کی طرف دیکھتا تو مالی حالات اسے بتاتے کہ اگر رقم ڈوب گئی تو اس کے ہاتھ کچھ نہیں بچے گا۔  وہ خاصا پریشان ہوا کہ کیا کرے۔  وہ کوئی نہ کوئی کاروبار کرنا چاہتا تھا۔ لیکن پھر اسے ایسی ایک جگہ مل گئی کہ جہاں وہ پیسا لگاتا تو اسے قلیل عرصے  میں قلیل رقم کے ساتھ  ایک اچھا منافع مل سکتا تھا۔ اور وہ جگہ تھی بکرا  عید سے پہلے جانوروں کی خرید و فروخت۔  

            حاشر کا خیال تھا کہ عید سے قبل جانور خریدنے اور انہیں فروخت کرنے کے اس کاروبار کے ذریعے وہ کچھ نہ کچھ رقم  اکٹھی کر سکتا ہے، لہٰذا اس نے اس حوالے سے امکانات پر سوچنا شروع کردیا۔ جتنا وہ سوچتا جاتا تھا وہ اس کاروبار کے لیے  اپنے آپ کو مطمئن کرتا جاتا تھا۔ لیکن جیسے ہی وہ اپنے گھر کے مالی حالات کی طرف نظر ڈالتا تو اس کا ارادہ لڑکھڑانے لگتا۔ اسے لگتا کہ اگر یہ رقم جو کہ قسمت سے اس کے پاس آئی ہے، اگر برباد ہو گئی تو وہ کیا کرے گا۔ یہ خوف اس کی  ہمت توڑنے لگتا۔ لیکن پھر اسے خبیب مل گیا۔  ایسا نہیں تھا  کہ خبیب اسکو پہلی بار ملا تھا ، بلکہ وہ اس کا   ایک عرصے سے جاننے والا تھا۔ بس یہ میل جول کبھی دوستی کی حد تک نہیں آ سکا تھا۔  ایک ان دیکھی سی دیوار ان کے  درمیان تھی، جسے نہ تو کبھی خبیب نے گرانے کی کوشش کی اور نہ کبھی حاشر نے۔ اس دیوار کو قائم رکھے بس  وہ دونوں ملاقاتیں کرتے رہے اور اپنی غرض پوری کرتے رہے۔ لیکن اکٹھے جانوروں کی خرید و فروخت کے کاروبارکے آئیڈیے نے یہ دیوار  جیسے دھم  سے گرا دی۔

            ایک شام جب حاشر کی خبیب سے ملاقات ہوئی تو بس یوں ہی جانوروں کی خرید و فروخت کی بات چل نکلی۔ خبیب نے حاشر کو بتایا کہ وہ ایک دفعہ جانوروں کی خریدوفروخت کا تجربہ کر چکا ہے اور وہ تجربہ اس کے لیے  خاصا منافع  بخش رہا تھا۔ جانوروں کی فروخت اسے بالکل مشکل نہیں لگی تھی۔ اس نے کہا:

"بس تم اپنے جانور لے کر کہیں بھی کھڑے ہو جاؤ۔ گاہک خود ہی چل کر آپ کے پاس آ جائے گا۔ جانور آپ کا بس خوبصورت ہونا چاہیے، گاہک منہ مانگی قیمت دے کر جائےگا۔"

            خبیب کی اس بات نے حاشر کو ساتویں آسمان پر پہنچا دیا۔ اس نے خبیب سے اپنے  ارادے کا اظہار کر ڈالا اور اسے شراکت داری کی پیشکش بھی کر ڈالی۔ خبیب نے شراکت داری میں زیادہ دلچسپی نہ دکھائی اور کہا کہ وہ اس بار کاروبار کا  کوئی ارادہ نہیں رکھتا کیونکہ اس کے پاس کسی قسم کے کوئی پیسے نہیں۔ اس پر حاشر نے اسے پیشکش کی کہ اگر وہ اس کی مدد  اچھے جانوروں کی خریداری اور فروخت میں کرے توہ اسے منافع میں تیس فیصد کا شراکت دار بنا سکتا ہے۔ حاشر ایسی پیشکش خبیب کو اس لیے کر رہا تھا، کیونکہ اسے جانوروں کی خرید و فروخت کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ بلکہ وہ تو کبھی جانور منڈی  بھی نہیں گیا تھا، سوائے  اس کے  کہ ایک دو بار صدقے وغیرہ کے بکرے لینے۔ اب اسے تجربہ کار بندہ مل رہا تھا تو وہ کیوں  اس کا   فائدہ نہ اٹھاتا۔ لیکن بد قسمتی کی بات یہ تھی  کہ خبیب کو بھی زیادہ جانوروں کی خرید و فروخت کا تجربہ نہیں تھا۔ اس نے بھی بس ایک ہی سال دو چار بکرے خرید کر آگے بیچے تھے۔ وہ بھی حاشر کی طرح ایک طالب علم تھا ،  اپنی ان تمام کمزوریوں کو خبیب نے بنا کسی لگی لپٹی حاشر کے آگے رکھ دیا۔ لیکن حاشر ہر صورت خبیب کو اپنا شراکت دار  بنابنا چاہتا تھا۔ دراصل وہ صرف ایک ڈھارس چاہتا تھا جو اسے کاروبار  کے لیے  پہلا قدم اٹھانے میں مدد فراہم کرسکے۔ لیکن وہ یہ نہیں  سمجھ  رہا تھا کہ وہ اپنے اس  قدم  کی ڈھارس کے لیے  جس ستون کا انتخاب کر رہا ہے وہ تو خود  ابھی  تازہ اور کچی اینٹوں کا بنا ہے۔ اسے مضبوط ہونے کے لیے  ابھی وقت درکار ہے۔ اس کے سہارے سے تو بہتر ہے وہ  اپنے کمزور قدموں پر ہی انحصار کرے۔ اور اگر ایسا نہیں کر سکتا تو قدم ہی نہ  اٹھائے۔

            بہرحال ہمارے تبصرے اپنی جگہ،  اصل میں ہوا کچھ یوں کہ خبیب حاشر کے ساتھ شراکت داری پر مان گیا۔  جب دونوں شراکت داری پر آمادہ ہو گئے تو خبیب نے حاشر کو بتایا کہ پنڈی کے نزدیک گاؤں میں اس کے  ایک جاننے والے ہیں ۔ ان سے اگر ہم اپنے پاس موجودہ رقم سے تین چار بکرے لائیں اور پھر انہیں بیچیں، پھر اس آنے والی رقم سے دوبارہ بکرے خریدیں اور بیچیں تو عید تک وہ خاصا منافع  کاما سکتے ہیں۔ حاشر نے بنا کچھ سمجھے اور کاروبار کے تاریک پہلوؤں پر غور کیے کہا:

"ٹھیک ہے پرسوں ہم ان کے پاس چلیں گے۔ تم ایسا کرو کہ ان کو اطلاع کر دو کہ ہم آ رہے ہیں۔"

خبیب نے طے شدہ بات کے مطابق اپنے جاننے والوں کو اطلاع کر دی۔ ادھر حاشر نے اپنی خاموش طبع کے عین مطابق کسی سے مشورہ کرنا مناسب ہی خیال نہ کیا۔  اگلے دن اس نے بس ماں کو اتنا بتایا کہ وہ پنڈی جا رہا ہے۔ ماں نے استفسار کیا تو بولا کہ کام ہے۔ جب ماں نے کریدنے کی کوشش کی تو بولا کہ  کاروبار کے لیے  جا رہا ہے،  ماں دعا  کرے۔

            مقررہ دن پر دونوں  ساتھی پنڈی پہنچ گئے ۔ ان کی ملاقات اس شخص سے تو ہو نہ پائی جس سے  جانور خریدنے وہ لاہور سے پنڈی آئے تھے۔ کیونکہ اس نے انہیں پہنچنے سے کچھ دیر پہلے ہی بتایا کہ اس کے  بکرے تمام بک گئے ۔ لہٰذا ان کو آنے کی ضرورت نہیں۔ اس پر دونوں ساتھیوں کو خوب غصہ آیا۔ لیکن یہ لمحہ زندگی کے ان لمحوں میں سے ایک تھا کہ جب انسان دانت پیسنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔ دونوں ساتھیوں نے پنڈی میں ہی جانور منڈی دیکھنے کا فیصلہ کیا۔  منڈی دیکھتے دیکھتے ان کو ایک جگہ بکروں کا بیوپاری گھیرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کے پاس چھے بکرے تھے۔ چھوٹے قد کے  دیسی بکرے۔ دراصل  بیوپاری بہت گھاگ تھا۔ اس نے فوراً بھانپ لیا تھا کہ اس کے  پاس لینے آنے والے دونوں افراد ناتجربہ کار ہیں اور ان کو بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔  اس نے انہیں تئیس ہزار فی بکرا دینے کی پیشکش کی اور بائیس ہزار فی بکرا پر سودا طے پا گیا۔  ایک لاکھ تیس ہزار میں وہ چھے بکرے لے کر لاہور واپس آگئے ۔

            بکروں کو انہوں نے خبیب  کے گھر کے باہر باندھا اور پھر حاشر اپنے گھر آگیا۔ واپس آ کر اس سے خوب پنڈی کے  سفر سے متعلق پوچھ کچھ ہوئی۔ اس نے گھر کے باقی افراد کو تو کچھ نہ کچھ کہہ کر ٹالا لیکن بڑے بھائی کو تمام اصل بات سے آگاہ کر دیا۔ بڑے بھائی نے سنتے ہی پہلے تو جھاڑا کہ کیا ضرورت تھی ایسے کاروبار  میں کودنے کی جس کا تمھیں تجربہ ہی نہیں تھا۔ لیکن پھر اس نے کہا کہ وہ بکرے دیکھنا چاہے گا۔  حاشر نے اسے اگلے روز بکرے دکھانے کا کہا۔

            شام کے وقت حاشر جب سو رہا تھا، اس کا   موبائل بجا۔ اس نے فون اٹھایا۔

حاشر:

"ہیلو، السلام علیکم۔"

دوسری طرف خبیب کی گھبرائی ہوئی آواز تھی۔

"یار بکرے جو ہم لائے تھے لٹک رہے ہیں۔ مجھے ان کی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی۔"

حاشر قدر گھبرا کر اٹھ بیٹھا:

"کیا مطلب حالت ٹھیک نہیں لگ رہی؟"

خبیب:

"مجھے یہ بیمار لگ رہے ہیں۔

حاشر:

"بیمار لگ رہے ہیں؟"

خبیب:

"ہاں یار۔ تیری مہربانی جلدی آ۔ ایک کی حالت تو بہت ہی خراب ہے۔"

حاشر جلدی سے اٹھا اور خبیب کے گھر بھاگا۔

"جب وہ پہنچا تو خبیب ایک بکرے کو ذبح کروا رہا تھا۔ اس نے حاشر کو دیکھا تو بولا:

"بالکل مرنے کے قریب تھا۔ سب مشورہ دے رہے تھے کہ فورا ذبح کروا دو۔ میں نے ایک قصائی کو بیچنے کی کوشش کی لیکن اس نے نہ خریدا۔ مجبورا ًیہ قدم اٹھانا پڑا۔"

حاشر نے غیر یقینی سے باقی بکروں کو دیکھا۔  ان کی حالت بھی خاصی خستہ معلوم ہو رہی تھی۔  اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ پر اس نے ہمت پکڑی۔ خبیب سے کہا کہ ڈاکٹر بلائے۔ لیکن دونوں کے پاس اب ڈاکٹر کو دینے کو پیسے بھی نہیں تھے۔ حاشر نے بڑے بھائی کو فون کیا۔ ساری صورتحال بتائی اور قرض کے طور پر دو ہزار روپے مانگے۔ بھائی بھی پریشان بکروں کے پاس پہنچا۔ پھر ڈاکٹر کو بلایا۔  اس نے بتایا کہ بکروں کو بری طرح نمونیا ہواہے۔  میں ان کو دوا دے رہا ہوں، امید ہے بہتر ہو جائیں گے۔ حاشر منہ لٹکائے گھر آگیا۔   رات گزری اور صبح خبیب نے فون کیا کہ ایک اور بکرے کی حالت بری طرح خراب ہو رہی ہے۔ اس کو بھی لگتا ہے ذبح کرنا پڑے گا۔ حاشر کے آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ یہ بکرے اس کی کل جمع پونجی تھی، اور اس نے ایک خواب کو ان سے منسلک کر رکھا تھا۔ اس نے بغیر کچھ کہے فون بند کر دیا۔ ماں کے پاس گیا اور اس کی گود میں سر رکھ  کے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔  پھر اس نے تمام بات تفصیل سے ماں کو بتا دی۔ ماں بھی کیا کر سکتی تھی سوائے تسلی دینے کے۔  سو اس نے تسلی دی۔ ماں نے کہا، بیٹا زندگی تو چلتی رہتی ہے، آج نقصان  ہے تو کل فائدہ، آج برا وقت ہے تو کل اچھا بھی آئے گا۔ مصیبت کے وقت صبر اور حوصلے سے کام لینا چاہیے۔ اٹھو، ہمت کرو ، کچھ اوپائے کرو، یوں دل چھوڑ کے بیٹھ رہنے سے کیا ہوگا۔

حاشر جیسے انہی تسلیوں کا تو منتظر تھا۔ وہ  اٹھا اور بکروں کے پاس پہنچا۔ بکرے کی حالت واقعی غیر تھی۔  اس کو لگا کہ یکے بعد دیگرے سب اسی طرح ذبح کرنے پڑیں گے اور اس کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ ابھی وہ پریشان ہی کھڑے تھے کہ بڑا بھائی ایک صاحب کو لے کر پہنچا۔ یہ صاحب ایک این جی او چلا رہے تھے اور مختلف جگہوں پر کھانا تقسیم کیا کرتے تھے۔  ان کو بکرے دکھائے گئے ۔ انہوں نے کہا کہ بکرے جس مرضی حالت میں ہیں انہیں تو بس ان کا گوشت چاہیے۔ وہ صرف چیک کروائیں گے کہ بیماری کی وجہ سے ان کا گوشت تو خطرناک نہیں ہوگیا۔   اگر ایسا نہ ہوا تو وہ بکرے خرید لیں گے۔ انہوں نے ادھر ہی ایک ڈاکٹر بلوایا۔ اس نے آتے ہی بتایا کہ بیماری کی وجہ سے گوشت پر کوئی اثر نہیں۔ پھر ان صاحب نے کہا کہ وہ دس ہزار فی بکرا خرید سکتے ہیں۔ حاشر نے چاہا کہ قیمت پندرہ ہزار تک لگ جائیں لیکن وہ صاحب نہ مانے۔ بڑے بھائی نے اسی میں عافیت جانی کہ جتنے میں سودا طے پا رہا ہے طے پا جائے  اور یوں جو بکرے ایک لاکھ تیس ہزار میں خریدے گئے  تھے پچاس ہزار میں فروخت ہو گئے ۔ حاشر کو اسی ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ یہ وہی رقم تھی جو حکومت سے وظیفے کی صورت میں اسے ملی تھی۔

حاشر اس تجربے سے  خاصا دل برداشتہ ہوا لیکن دلبرداشتہ ہونے سے کچھ ہو تونہیں  سکتا ناں، کچھ رک تو نہیں جانا تھا ناں، کچھ بدل تو نہیں جانا تھا ناں۔ زندگی چلتی رہنی تھی اور چلتی رہی۔  عید آئی اور گزر گئی۔  حاشر اور خبیب دونوں اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہو گئے ۔  شاید یہی  اس زندگی کا حسن ہے۔ اس میں تلخ تجربہ آتا ہے اور گزر جاتا ہے۔ پھر خوشگوار تجربہ بھی آتا ہے اور گزر جاتا ہے۔ کچھ بھی نہیں ٹھہرتا، بہتی ندی کی طرح بہہ جاتا ہے۔