حقیقتِ حال تک پہنچنے کے لیے کان، دل، دماغ اور آنکھیں سب کا استعمال ضروری ہے

بات کرنے کی طرح بات سننے کا بھی سلیقہ ہے۔ جسے بات کرنے کا سلیقہ نہ ہو اسے سننے کا سلیقہ بھی نہیں آتا اور وہ دوسروں کو نہیں سمجھ سکتا۔ بہت سے لوگ طبیب کو اس لیے نہیں بلاتے ہیں کہ وہ ان کا معاینہ کرے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ ان کی بات سنے۔

اکثر لوگوں کے اندر توجہ سے سننے کا ملکہ موجود ہوتا ہے۔ تربیت کے ذریعہ اس خوبی کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔

جب آپ توجہ سے سنتے ہیں تو:

آپ کو پوری اور صحیح صورتِ حال معلوم ہوتی ہے۔ آپ اپنی پسند کے مطابق فوری نتیجہ اخذ کرنے کے بجائے مخاطب کے ذہن ودل کو سمجھ کر رائے قائم کرتے ہیں۔

 طبعیت مطمئن ہوتی ہے: خاص طور پر اس وقت جب آپ کو یہ لگتا ہو کہ آپ کی رائے بہتر ہے اس وقت توجہ سے سن کر رائے تبدیل کریں تو دل کو سکون و اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ ہم یہ اصول سیکھتے ہیں: (سلیمان علیہ السلام) نے کہا ہم ابھی دیکھتے ہیں کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے (النمل 27)۔

فطری تقاضے کی تکمیل ہوتی ہے: ابو درداءؓ کی نصیحت ہے کہ منہ کے مقابلے میں کانوں کو ان کا حق دو۔ تمہیں دو کان اور ایک منہ اس لیے دیے گئے ہیں کہ بولنے سے زیادہ سنو۔

ہم بہادری کا سبق سیکھتے ہیں: میں معذرت چاہتا ہوں یا میں نے آپ کے ساتھ زیادتی کی جیسے الفاظ کے ذریعے صمیمِ قلب سے اپنی غلطی کا اعتراف ہمیں بہادر بناتا ہے۔ اس طرح ہم اپنی اصلاح کی سچی کوشش کرسکتے ہیں اور لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا سکتے ہیں۔

 مختصر وقت اور کوشش کے ساتھ بہتر علاج تجویز کرسکتے ہیں: آپ مخاطب کے جذبات کے ذریعہ اس کے اطراف کی دنیا کو سمجھ سکتے ہیں۔ اس کی حالت کی تشخیص کرکے مختصر وقت میں علاج تجویز کر سکتے ہیں۔

بین السطور کو سمجھ سکتے ہیں: ہر شخص اپنی گفتگو کے درمیان، خصوصا اپنے اندرونی احساسات کے اظہار کے وقت بین السطور میں بہت سی باتیں کہتا ہے۔ توجہ سے سن کر آپ ان ناگفتہ پیغامات کو سمجھ سکتے ہیں۔ الفاظ اور اندرونی خیالات کے درمیان ربط پیدا کریں۔

 سیدِ انسانیتﷺ کی نصیحت پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں: حجۃ الوداع کے موقع پر پیارے نبیﷺ نے حضرت جریر بن عبد اللہ بجلیؓ سے کہا تھا "لوگوں سے کہو کہ توجہ سےسنیں"۔

 حق تک پہنچ سکتے ہیں: میں اپنے مقاصد کو سامنے رکھ کر نہیں سنتا بلکہ حق کو سمجھنے کے لیے سنتا ہوں۔ حقوق وجذبات آپ کے ہوں یا دوسروں کے سب کی یکساں اہمیت ہے۔ لیکن حق سب سے بلند وبرتر ہے۔ حضرت عمر جیسا مزاج پیدا کریں: "میں نے کسی سے بھی بحث کی تو یہ تمنا رہی کہ اس کی زبان سے حق بات نکلے"۔ خواہشاتِ نفس سے بلند ہوکر صرف اور صرف حق سے محبت مطلوب ہے۔

توجہ سے سننے کا سلیقہ کیا ہے:

تعلیم وتربیت کےذریعہ سننے کی مہارت کو پروان چڑھائیں: یہ موروثی نہیں بلکہ اکتسابی صلاحیت ہے، جسے آسانی سےسیکھا جاسکتا ہے۔

غور سے سنیں اور اپنی گفتگو سے پہلے مخاطب سے دریافت کریں کہ آپ کی بات مکمل ہو گئی ہے یا نہیں: قطعِ کلامی کیے بغیر پوری بات سنیں، حقائق، جذبات اور رایوں کے درمیان فرق کریں۔ حضرت عطاء ابن ابی رباحؒ کی مثال اپنے سامنے رکھیں۔ ایک نوجوان نے جب آپ کو کچھ باتیں سمجھانے کی کوشش کی تو اتنی توجہ سے سنتے رہے گویا وہ یہ باتیں پہلی بار سن رہے ہوں، جب اس نوجوان نے اپنی گفتگو مکمل کی اور چلا گیا تو حاضرین نے ان کی توجہ پر تعجب کا اظہار کیا، اس پر انھوں نے کہا ’’اللہ کی قسم اس نے جو کچھ کہا وہ میں اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ پیدا بھی نہیں ہوا تھا‘‘۔

ہمہ تن گوش ہو جائیں: حقیقتِ حال تک پہنچنے کے لیے کان، دل، دماغ اور آنکھیں سب کا استعمال کریں۔ سراپا سماعت بن جائیں، اس کے لیے اپنی ہر طرح کی صلاحیت کا استعمال کریں۔ ان کی طرح نہ بن جائیں جن کے بارے میں قرآن نے کہا ہے کہ "اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں" (الاعراف 179)۔ وہ توجہ سے نہیں سنتے تھے۔ کانوں سے الفاظ ٹکراتے تھے لیکن دلوں تک اس کی آواز نہیں پہنچتی تھی۔

سماعت کے متنوع اسالیب: میں ہر فرد کو ایک ہی انداز سے سننے کے بجائے ہر شخص کے لیے مناسبِ حال اسلوب اختیار کرتا ہوں۔ یہ اس وقت بہتر طریقے سے ہوسکتا ہے جب آپ مخاطب کی نفسیات سمجھتے ہوں۔ کسی کے لیے مناسب یہ ہوتا ہے کہ آپ درمیان میں سوالات کریں۔ کہیں سر ہلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر جگہ اگر میں ایک ہی اسلوب اختیار کروں تو اس کا نتیجہ بھی ناکامی کی صورت میں سامنے آئے گا۔

 سننے کا مقصد سمجھنا ہو نہ کہ جواب کی تیاری کرنا: کچھ لوگ سنتے ہیں پر سمجھنے کی زحمت انھیں گوارا نہیں ہوتی، وہ اس لیے سنتے ہیں کہ مخاطب ان کی بات سنے یا اس دوران وہ اپنا جواب تیار کر لیں۔

( عربی سے ترجمہ: اشتیاق عالم فلاحی)