ابر باراں کا انتظار کیا
ابر باراں کا انتظار کیا
جب کبھی دیدہ اشک بار کیا
تم تو پھولوں کی راہ سے گزرے
میں نے نے کانٹوں کو رہ گزار کیا
ارتقائے یقیں کا ضامن ہوں
جب سے امکاں پہ اعتبار کیا
رکھ کر آپس میں اختلاف سدا
ہم نے ایماں کو شرمسار کیا
یوں تو حاکم بہت ہی آئے یہاں
ختم کس نے پر انتشار کیا
رب کا احسان مانو کہ رب نے
نور حق ہم پہ آشکار کیا