اب جو مل جاؤ تو کمی نہ کروں

اب جو مل جاؤ تو کمی نہ کروں
شکوہ کیسا کہ بات بھی نہ کروں


کیا خبر کیسے نقش ابھر آئیں
ابھی سینہ میں روشنی نہ کروں


ہے وفا شرط ان کی بات رہے
اپنے دل کی کہی سنی نہ کروں


ذکر ان کا بھی چھڑ نہ جائے کہیں
چپ رہوں اپنا ذکر بھی نہ کروں


زندگی ہے تو ہے خیال ان کا
خیر چاہوں تو یاد بھی نہ کروں


ان کا ملنا محال ہے لیکن
اپنے دل سے تو دشمنی نہ کروں


کتنی سونی ہے راہ زیست ظفرؔ
کیا کروں ان کو یاد ہی نہ کروں