اب دل ہے ان کے حلقۂ دام جمال میں

اب دل ہے ان کے حلقۂ دام جمال میں
دیکھا نہ تھا جنہیں کبھی خواب و خیال میں


اے تلخئ فراق بجز نالۂ الم
پایا نہ کچھ بھی میں نے امید وصال میں


فطرت نے دے کے عشق کو احساس ضبط شوق
الجھا دیا ہے کشمکش لا زوال میں


بار غم جہاں بھی ہے تیرا خیال بھی
ہیں کتنی وسعتیں دل آشفتہ حال میں


آواز دی ہے تجھ کو تصور نے بارہا
راہ سرور میں کبھی دشت ملال میں


اپنے ہی دل پہ کچھ نہیں موقوف اے نسیمؔ
ہر دل اسیر ہے غم ہستی کے جال میں