آئے کمشنر اوئے کمشنر

        لوگ بھلے کمشنر کسی کو بھی سمجھتے ہوں، ہماری لغت میں تو کمشنر وہ ہوتا ہے جو ہر معاملے میں اپنا کمیشن لے۔ لہٰذا اس رو سے سرکار کا کلرک بھی کمشنر ہی ہوتا ہے۔   کلرک تو دور کی بات ہے یہاں سرکار کا نائب قاصد بھی  ہو  تو نخرا اس کا کمشنر والا ہی ہوتا ہے۔  جو لوگ میری یہ بات پڑھ کر اس سے متفق نہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس ضمن کچھ اور خیال رکھتے ہیں، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان کو کبھی ان سے پالا ہی نہیں پڑا۔   ان کو میری بات سے متفق کروانے کے لیے ضروری یہ نہیں کہ  میں انہیں کوئی دلیل دوں، بلکہ ضروری یہ ہے کہ انہیں ان سے کوئی کام پڑے۔ بس ایک دفعہ کام پڑ جائے، وہ خود ہی میری بات پر ایمان کی حد تک یقین کرنے لگیں گے۔

یہاں ایک بات میں آپ کو بڑے واضح الفاظ میں بتانا چاہتا ہوں۔ دھیان سے پڑھیے گا، بڑے گر  کی بات ہے۔ آپ کو سرکاری کمشنروں سے کبھی بھی کام پڑے تو  دو ہی قسم کی صورتحال کا سامنا ہوگا۔ پہلی صورتحال میں آپ کا کسی قسم کا کام نہیں ہوگا اور دوسری صورتحال میں آپ کا کام ہو نہ ہو، آپ کی جیب کا مکمل کام ہو جائے گا۔ خیر، اہل نظر کے طویل مدتی مشاہدے سے ایک بات تو واضح ہے: سرکار ملک کی ہو یا گھر کی، ایک مرتبہ آپ کا اس سے سابقہ پڑ جائے، جیب کا آپ کی کام  ضرور ہی ہوگا۔  لہٰذاسیانے کہتے ہیں، سرکار کوئی بھی ہو، بس اس سے بچ کر رہیں۔  باقی آپ نے وہ لطیفہ تو سنا ہی ہو گا کہ ایک شخص نے دوسرے سے پوچھا: "کیا سرکار کسی کو کڑوڑ پتی بنا سکتی ہے؟" دوسرے شخص نے جواب دیا: " ہاں۔ بشرط یہ کہ وہ شخص ارب پتی ہو۔"

        بہر حال میں سرکاری کمشنروں کی بات کر رہاتھا۔ ہمارے یہاں تمام سرکاری کمشنر  قائد اعظم کے بہت بڑے مرید  ہوتے ہیں۔ تب ہی تو ہر کام سے پہلے آپ سے ان کا دیدار کروانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو چائے پانی  بھی سب سے مہنگا وہ ہوتا ہے جو سرکاری کمشنروں کو پیش کرنا پڑ جائے۔  آپ چائے پانی کا خرچہ کر لیں، آپ کو یقین ہوجاتا ہے سرکاری کمشنر واقعی بہت چائے پانی پیتے ہیں۔ عام طور پر گھروں میں چائے کےلیے چولہے  میں آگ لگتی ہے لیکن یہی چائے سرکاری کمشنروں کی ہو تو کام کروانے کےلیے جانے والے کے تن بدن میں لگتی ہے۔ چائے کی گرمی سے  سرکاری کمشنروں کے ہونٹ جلیں نہ جلیں، کام کروانے والے کا دل ضرور جلتا ہے۔

        یہ تاثر عوام میں عام ہے کہ کتابوں میں کی گئی باتوں کا اصل زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ عوام کے ان چند تاثرات میں سے ایک ہے جو ٹھیک بھی ہیں۔  کیونکہ اس کا حقیقی مظہر ہمیں سرکاری محکموں میں دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ سرکاری  محکموں کے کام ہمارے ٹیکس سے چلتے ہیں۔ جبکہ زندگی کا حقیقی  تجربہ بتاتا ہے کہ  وہاں تو ہر  کام ہمارے چائے پانی سے  چلتا ہے۔ چائے پانی کو اگر آپ سرکاری کاموں کا ایندھن کہیں تو غلط نہ ہوگا۔  یہ وہ ایندھن ہوتا ہے جو ڈلتا تو سرکاری کمشنروں کے جیبوں میں ہے لیکن اس کا دھواں ایندھن دینے والے کے دل سے اٹھتا ہے۔ تب ہی تو معاشرے میں اتنا تعفن پھیلا ہے۔

خیر چھوڑیں۔ آپ کو ایک اور بات بتاتا ہوں۔ ہمارے ہاں سرکار کمیشنوں کی بہت دلدادہ  ہے۔ اگر اسے کوئی کام نہ کرنا ہو تو اس کےلیے کمیشن بناتی ہے اور اگر کرنا ہو تو پھر کمیشن لیتی ہے۔ دونوں صورت حال میں کمیشن کو مرکزی حیثیت حاصل رہتی ہے۔ ہمارے ہاں کمیشن جو بنائے ان کے کام کرنے کا انداز دیکھ کر ڈاکٹر بندر والی کہانی یاد آ جاتی ہے۔ آپ نے تو سن رکھی ہی ہو گی یہ کہانی۔ اگر نہیں تو میں آپ کو سناتا ہوں۔ کسی جنگل میں ایک بندر رہتا تھا جو  طبیب مشہور تھا۔ ایک دفعہ جنگل میں شیر بیمار پڑ گیا۔ جنگل کے جانوروں نے بندر سے کہا کہ شیر کا علاج کرو۔ بندر میاں جو تھے وہ ایک درخت سے دوسرے درخت اور پھر دوسرے سے تیسرے درخت پر چھلانگیں لگانے لگے۔  جانور بڑی حیرانی سے بندر میاں کو دیکھتے رہے۔ ادھر بندر میاں ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگاتے اور درختوں کی شاخوں پر دوڑتے پھرتے تھے اور اُدھر شیر کی حالت بگڑتی جاتی تھی۔ جنگل کے جانور بہت ہی زیادہ پریشان ہو گئے کہ ڈاکٹر بندر کیا کرتے پھرتے ہیں۔ ابھی یہ سب تماشا جاری تھا کہ شیر کا انتقال ہو گیا۔ جنگل کے جانوروں کو بہت غصہ آیا کہ ادھر شیر کی حالت تھی کہ بگڑتی جاتی تھی اور بندر میاں تھے کہ ادھر ادھر دوڑتے پھرتے تھے۔ انہوں نے بندر کو پکڑ لیا تو بندر انتہائی افسردگی سے ایک تاریخی فقرہ بولا:

"میں نے بھاگ دوڑ تو بہت کی لیکن آگے اللہ کی مرضی۔"

ہمارے ہاں بننے والے کمیشن بھی اسی قسم کی بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔  کمیشن اور گھر کے شرارتی بچے ہمارے ہاں وہ ہیں جن کی رپورٹس ہمیں ہمسایوں سے ملتی ہیں۔ آپ کو حمود الرحمان کمیشن تو یاد ہی ہوگا۔

        ہاں میں نے تو آپ سے ابھی ایک اور سرکاری کمشنر کے  بارے میں بھی بات کرنا تھی۔ یہ سرکاری کمشنر واقعی کمشنر ہوتا ہے جسے ہم شہر کا نہیں، تحصیل کا بھی نہیں، بلکہ پوری ڈویژن کا منتظم اعلٰی بناتے ہیں۔  یہ کمشنر اس قدر اہلیت کا حامل ہوتا ہے کہ سڑک پر اس کی اپنی گاڑی کسی گڑھے سے جھٹکا کھائے تو اندر بیٹھا کہتا ہے۔ کون الو کا پٹھا ہے جو اسے مرمت نہیں کرواتا۔ یہ وہ واحد موقع ہوتا ہے جب وہ اپنی اصلیت اپنی زبان سے تسلیم کرتا ہے۔ یہ کمشنر اپنے ساتھ پروٹوکول بھی اسی لیے رکھتا ہے کہ اسے یقین رہے کہ وہ کمشنر ہے۔

        بہر حال ہمیں اسی سب کے ساتھ جینا ہے اور امید ہے کہ ایک دن یہ سب ٹھیک ہوگا۔