آسمانوں کی بلندی سے اتر آیا ہوں

آسمانوں کی بلندی سے اتر آیا ہوں
اے زمیں مجھ کو سہارا دے میں گھر آیا ہوں


مدتوں بعد پکارا مری وحشت نے مجھے
مدتوں بعد میں صحرا میں نظر آیا ہوں


دیکھ راہوں میں مری خار بچھانے والے
میں ادھر چھوڑ کے گلزار ادھر آیا ہوں


سنگ ہاتھوں میں لیے بیٹھے ہیں احباب یہاں
اور میں شانوں پہ سجائے ہوئے سر آیا ہوں


چشم حیرت سے جسے دیکھا کرے گی دنیا
رنگ ایسے تری تصویر میں بھر آیا ہوں


خود کو چاہوں بھی تو اب دیکھ نہیں پاؤں گا
اپنی آنکھیں تری دہلیز پہ دھر آیا ہوں


اس قدر گہرا دھندلکا تھا ہنر رستوں میں
بڑی مشکل سے زمانے کو نظر آیا ہوں


چمن شاعری چھائی تھیں خزائیں جس پر
لے کے شیبانؔ وہاں میں گل تر آیا ہوں