عارض اشکوں سے ترے تر نہیں دیکھے جاتے
عارض اشکوں سے ترے تر نہیں دیکھے جاتے
خاک میں رلتے یہ گوہر نہیں دیکھے جاتے
دیکھ سکتا ہوں زمانے کی بدلتی نظریں
تیرے بدلے ہوئے تیور نہیں دیکھے جاتے
آئنہ بھی رخ روشن کے مقابل نہ رہے
ہم سے کوئی ترے ہمسر نہیں دیکھے جاتے
دل کے ساگر میں جو ہر شام و سحر اٹھتے ہیں
وہ تلاطم کبھی باہر نہیں دیکھے جاتے
مسکراتے ہوئے چہرے پہ نظر سب کی پڑی
زخم دل کے مگر اکثر نہیں دیکھے جاتے
حسن کے جلوے جو دیکھے ترے دیوانے نے
ہوش والوں سے وہ اکثر نہیں دیکھے جاتے
قدر کر قدر مرے ذوق نظر کی ساقی
سب حسیں یوں تو مکرر نہیں دیکھے جاتے
میکدہ اپنا ہے اور بادہ و ساقی اپنے
غیر کے ہاتھ میں ساغر نہیں دیکھے جاتے
یہ حسیں وادی و دریا گل و گلزار حبیبؔ
بن ترے مجھ سے یہ منظر نہیں دیکھے جاتے