آؤ مل بیٹھیں کوئی راہ نکالی جائے
آؤ مل بیٹھیں کوئی راہ نکالی جائے
گھر کی دیوار گری ہے تو اٹھا لی جائے
سوکھے پھولوں کو بھی کشکول محبت سمجھو
خون دل چھڑکو کوئی پھول نہ خالی جائے
دل کی بستی کو بسانا کوئی آسان نہیں
یہ وہ دنیا ہے کہ جب چاہے بنا لی جائے
کوئی آہٹ نہ کوئی چاپ نہ دستک در پر
دل کی دھڑکن سے ہی آواز ملا لی جائے
بیٹھے بیٹھے کبھی ایسی بھی گھڑی آتی ہے
میں اسے ٹالنا چاہوں تو نہ ٹالی جائے
یہ تو اچھا نہیں پردیس میں آنے والو
اپنی مٹی سے ہی پہچان ہٹا لی جائے