آؤ امر ہو جائیں

ہر سال نو کو مل کے
یہ رسم ہے بنائی
لیکن ہے یاد رکھنا
جو سال پچھلا گزرا
جو حادثے ہوئے ہیں
جو فاصلے ہوئے ہیں
کچھ رابطے بڑھے ہیں
کچھ سلسلے کٹے ہیں
محفوظ پہلے کر لیں
مضبوط پہلے کر لیں
پھر خوش گوار لمحے
خوشبو بھری وہ باتیں
سب چاندنی کی راتیں
یادوں کی کہکشائیں
کندن سی آتمائیں
سب چندرما سے چہرے
نکھرے ہوئے سویرے
آشا کے دیپ بھی ہوں
سوچوں کے سیپ بھی ہوں
مخمور ہوں گھٹائیں
مسحور ہوں فضائیں
آنچل دھنک سے بکھریں
ساتھی نہ کوئی بچھڑیں
باغ و بہار من ہو
من میں یہی لگن ہو
آؤ کہ آج کے دن
پھر ایک بار مل کے تجدید عہد کر لیں
اس دیس کی زمیں میں
خوشیاں ثمر لگائیں
آؤ امر ہو جائیں