آنکھ پر ریت مل رہے ہیں ہم
آنکھ پر ریت مل رہے ہیں ہم
سو زمیں کو بھی کھل رہے ہیں ہم
ہم کو معلوم بے خودی اپنی
پھر بھی صحرا میں چل رہے ہیں ہم
واسطے دے رہا ہے صحرا بھی
خامشی کو نگل رہے ہیں ہم
زرد پتے صدائیں دیتے ہیں
ان کو پل پل کچل رہے ہیں ہم
میرؔ کی کیا غزل سنی ہم نے
عاشقی میں بھی جل رہے ہیں ہم
جب سے دیکھا ہے بانوئے شب کو
دل ہی دل میں مچل رہے ہیں ہم
بے سبب کیوں ہنسی ستاتی ہے
آنسوؤں سے بہل رہے ہیں ہم
آنکھ منظر بدلتی رہتی ہے
شام کے ساتھ ڈھل رہے ہیں ہم