آندھیاں غم کی چلیں اور کرب بادل چھا گئے

آندھیاں غم کی چلیں اور کرب بادل چھا گئے
تجھ سے کیسے ہو ملن سب راستے دھندلا گئے


کرچی کرچی خواہشیں آنکھوں میں چبھ کر رہ گئیں
زرد موسم آس کی ہریالیوں کو کھا گئے


میں کہ جس نے ہر صعوبت مسکرا کر جھیل لی
منزلیں آئیں تو کیوں آنکھوں میں آنسو آ گئے


تیرے نا آنے کے دکھ میں شدتیں پھولوں نے کیں
وقت سے پہلے ہی سب گجرے مرے مرجھا گئے


قحط جذبوں کا پڑا ویراں سے ہیں دل کے نگر
شہر پر آسیب شاید ہجر کے منڈلا گئے


دعویٰ چاہت کا نہیں پر جب اسے سوچا عروجؔ
پھول خوشبو رنگ تارے آنکھ میں لہرا گئے