آنا ہے یوں محال تو اک شب بہ خواب آ

آنا ہے یوں محال تو اک شب بہ خواب آ
مجھ تک خدا کے واسطے ظالم شتاب آ


دیتا ہوں نامہ میں تجھے اس شرط پر ابھی
قاصد تو اس کے پاس سے لے کر جواب آ


ایسا ہی عزم ہے تجھے گر کوئے یار کا
چلتا ہوں میں بھی اے دل پر اضطراب آ


یہ خستہ چشم وا ہے ترے انتظار میں
اے صبح منہ دکھا کہیں اے آفتاب آ


تا یہ شب فراق کی دیجور دور ہو
اے رشک ماہ گھر میں مرے بے نقاب آ


آب رواں و سبزہ و روئے نگار ہے
ساقی شتاب ایسے میں لے کر شراب آ


روئیں گلے سے لگ کے بہم خوب کوئی دم
کیا دیکھتا ہے اے دل بے صبر و تاب آ


بحر جہاں میں دیر شد آمد روا نہیں
مانند قطرہ جا تو برنگ حباب آ


قربانی آج در پہ ترے کرنی ہے مجھے
لے کر کے تیغ تو بھی برائے ثواب آ


شاید وہ تجھ کو دیکھ کے غم کھائے مصحفیؔ
تو اس کے سامنے تو بہ چشم پر آب آ