عالمی سطح پر اسلحہ کی فروخت

 

مصنف: سپری ویب

      حالیہ دنوں میں   سویڈن کے دارالحکومت  سٹاک ہوم میں واقع تحقیقی ادارے  سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسیٹیوٹ (سپری) نے دنیا بھر میں اسلح سازی کی صنعت پر رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ میں اس نے دنیا کی سو نمایاں اسلحہ ساز کمپنیوں کی فروخت کا جائزہ لیا۔

اسلحہ سازی کی  صنعت کی 100 بڑی کمپنیوں کی ہتھیاروں اور فوجی خدمات کی فروخت 2020 میں مجموعی طور پر 531 بلین ڈالر رہی جو پچھلے سال کے مقابلے میں 1.3 فیصد زیادہ ہے۔ 2020  میں سر فہرست  کمپنیوں کی اسلحہ کی فروخت 2015 کے مقابلے میں 17 فیصد زیادہ ہے۔ 2015 وہ پہلا سال تھا  جس  میں SIPRI نے چینی فرموں کا پہلی بار ڈیٹا شامل کیاتھا۔ سپری کی رپورٹ بتاتی ہے کہ یہ چھٹا سال ہے کہ دنیا میں اسلحہ کی فروخت میں مسلسل اضافہ ہی دیکھا جا رہا ہے۔  یہاں تک کہ وبائی امراض کے پہلے سال کے دوران عالمی معیشت میں 3.1 فیصد کمی واقع ہوئی لیکن   اس صنعت کی خرید و  فروخت پھر بھی پھلی پھولی۔ SIPRI ملٹری ایکسپینڈیچر اینڈ آرمز پروڈکشن پروگرام کی ریسرچر "الیگزینڈرا   مارکسٹائنر"  اس کی وجہ کی  وضاحت کرتے  ہوئے   کہتی ہیں کہ ایسا اس لیے دیکھنے میں آیا کیونکہ عالمی منڈیوں میں مندی کے باوجود حکومتوں  کی بڑی بڑی اسلح ساز کمپنیوں  سے اسلحہ اور دیگر  عسکری خدمات کی خریداری برقرار  رہی۔  

دنیا کے بیشتر حصوں میں،  عسکری اخراجات میں اضافہ ہوا ، حتیٰ کہ کچھ حکومتوں نے ہتھیاروں کی صنعت کو ادائیگیوں میں بھی تیزی  دکھائی۔

بہر کیف، اسلحہ کی فروخت میں اضافے کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ صنعت وبا کے اثرات سے مکمل بچی رہی ہے۔ مثال  کے طور پر فرانسیسی اسلحہ ساز کمپنی تھیلس نے 2020 کے موسم بہار میں اسلحہ کی فروخت میں 5.8 فیصد کی کمی  کا سامنا کیا۔  اس نے اس کمی کی وجہ لاک ڈاؤن کو قرار دیا۔ اسی طرح بعض کمپنیوں نے سپلائی چین میں تعطل اور مال کے پہنچنے میں تاخیر کی بھی شکایات کیں۔

تاہم، اس سال بھی ریاست ہائے متحدہ امریکہ  کی سب سے زیادہ کمپنیاں    اس   فہرست میں اوپر  رہیں۔ مجموعی طور پر 41 امریکی کمپنیوں کے ہتھیاروں کی فروخت 285 بلین ڈالر تھی جو کہ 2019 کے مقابلے میں 1.9 فیصد زیادہ ہے۔ یہ فروخت نمایا  ں سو کمپنیوں کی  مجموعی فروخت کا چون فیصد ہے۔ 2018 سے  اسلحہ بیچنے والی سب سے نمایاں پانچ کمپنیاں امریکہ  کی ہی ہیں۔

آج کل امریکی ہتھیاروں کی صنعت  میں کمپنیاں آپس میں انضمام کرنے اور   نئی چیزیں حاصل کرنے کی لہر سے گزر رہی     ہیں۔  یہ لہر  اس لیے ہے تاکہ کمپنیاں اپنے پروڈکٹ پوٹفولیوز کو وسیع  کر سکیں اور  ٹینڈرز میں بولی کے دوران مسابقاتی برتری برقرار رکھ سکیں۔ مارکسٹائنر  نے کہا کہ  یہ رجحان خاص طور پر خلائی شعبے میں نمایاں ہے۔ Northrop Grumman اور KBR ان متعدد کمپنیوں میں شامل ہیں جنہوں نے حالیہ برسوں میں خلائی ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنے والی اعلیٰ  فرموں  سے معاہدات کیے  ہیں۔

ٹاپ 100 ہتھیاروں کی فروخت میں چینی فرموں کا دوسرا بڑا  نمبر ہے۔ اس فہرست میں شامل پانچ چینی کمپنیوں  کی مشترکہ ہتھیاروں کی فروخت 2020 میں اندازاً 66.8 بلین ڈالر تھی جو کہ 2019 کے مقابلے میں 1.5 فیصد زیادہ ہے۔ چینی فرموں کا یہ حصہ مجموعی سو کمپنیوں کی  فروخت کا 13 فیصد  ہے۔ چینی فروخت امریکہ سے پیچھے رہی، جبکہ برطانیہ سے اس کا حصہ زیادہ ہے۔ 

ایس آئی پی آر آئی کے سینئر محقق ڈاکٹر نان تیان نے کہا کہ حالیہ برسوں میں، چینی اسلحہ ساز کمپنیوں نے ملک کے  عسکری جدید پروگراموں سے فائدہ اٹھایا ہے اور فوجی سول فیوژن پر توجہ مرکوز کی ہے۔  وہ دنیا میں سب سے زیادہ جدید ترین ملٹری ٹیکنالوجی پروڈیوسر بن  گئی ہیں۔

اب ذکر کر لیتے ہیں   ٹاپ 100 کمپنیوں میں شامل 26 یورپی ہتھیاروں کی کمپنیوں کا۔  ان کا مشترکہ طور پر ہتھیاروں کی کل فروخت  میں حصہ 21 فیصد، یعنی  109 بلین ڈالر  ہے۔ سات برطانوی کمپنیوں نے 2020 میں 37.5 بلین ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت ریکارڈ کی، جو 2019 کے مقابلے میں 6.2 فیصد زیادہ ہے۔ BAE سسٹمز جو کہ ٹاپ 10 میں واحد یورپی فرم ہے، کے ہتھیاروں کی فروخت 6.6 فیصد اضافے سے 24.0 بلین ڈالر تک پہنچ گئی۔

SIPRI ملٹری ایکسپینڈیچر اینڈ آرمز پروڈکشن پروگرام کے ڈائریکٹر ڈاکٹر لوسی بیراوڈ سوڈریو نے کہا کہ ٹاپ 100 میں چھ فرانسیسی کمپنیوں  کی ہتھیاروں کی مجموعی فروخت میں 7.7 فیصد کمی   دیکھنے کو ملی۔ یہ کمی بڑی حد تک Dassault کی طرف سے رافیل جنگی طیاروں کی فراہمی کی تعداد میں سال بہ سال تیزی سے کمی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ سیفران کے ہتھیاروں کی فروخت میں اضافہ ہوا، تاہم نیویگیشن سسٹمز کی فروخت میں اضافہ کی وجہ سے۔

ٹاپ 100  اسلح ساز کمپنیوں میں درج چار جرمن فرموں کے ہتھیاروں کی فروخت 2020 میں $8.9 بلین تک پہنچ گئی ،  جو  2019 کے مقابلے میں 1.3 فیصد زیادہ ہے۔ ان فرموں کا  حصہ مجموعی فروخت کا 1.7 فیصد ہے۔ جرمنی کی سب سے بڑی اسلحہ ساز کمپنی Rheinmetall نے ہتھیاروں کی فروخت میں 5.2 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا۔ اس کے برعکس شپ بلڈر ThyssenKrupp نے 3.7 فیصد کی کمی کی اطلاع دی۔

روسی ہتھیاروں کی فروخت میں مسلسل تیسرے سال کمی ہوئی ہے۔ ٹاپ 100 میں شامل نو  روسی کمپنیوں کی مشترکہ ہتھیاروں کی فروخت 2019 میں اٹھائیس بلین ڈالر سے  کم ہو کر 26 بلین رہ گئی۔  یہ 2017 کے بعد سے دیکھے گئے نیچے کی طرف رجحان کے تسلسل کی نشاندہی کرتا ہے۔ 

روسی اسلحہ کی صنعت میں ایک اور اہم پیش رفت پروڈکٹ لائنز کا تنوع  آ جانا ہے۔ روسی کمپنیاں فی الحال ایک سرکاری پالیسی پر عمل درآمد کر رہی ہیں تاکہ 2025 تک سویلین سیلز میں اپنا حصہ 30 فیصد اور 2030 تک 50 فیصد تک بڑھایا جا  سکے۔

امریکہ، چین، روس، برطانیہ اور یورپ کے علاوہ جن ممالک کی کمپنیاں سو نمایاں  کمپنیوں کی فہرست میں رہیں ان کی 2020 میں کل فروخت $43.1 بلین تھی جو کہ 2019 کے بعد سے 3.4 فیصد زیادہ ہے۔ یہ ٹاپ 100 کے ہتھیاروں کی کل فروخت کا 8.1 فیصد ہے۔

ٹاپ 100 میں درج تین اسرائیلی کمپنیوں کے ہتھیاروں کی فروخت $10.4 بلین تک پہنچ گئی۔ اسی طرح  درجہ بندی میں پانچ جاپانی کمپنیوں کے ہتھیاروں کی مجموعی فروخت 2020 میں $9.9 بلین  رہی۔   یہ کل کا 1.9 فیصد ہے۔

جنوبی کوریا کی چار کمپنیاں بھی درجہ بندی میں شامل تھیں۔  ان کی مشترکہ ہتھیاروں کی فروخت 2020 میں 6.5 بلین ڈالر رہی، جو کہ سال بہ سال 4.6 فیصد زیادہ ہے۔

ٹاپ 100 میں تین ہندوستانی کمپنیوں کے مشترکہ ہتھیاروں کی فروخت میں 1.7 فیصد اضافہ ہوا۔ 2020 میں ہندوستانی حکومت نے ہتھیاروں کی پیداوار میں خود انحصاری کو تقویت دینے کے لیے مخصوص قسم کے فوجی ساز و سامان کی درآمد پر مرحلہ وار پابندی کا اعلان کیا۔

      مجموعی  طور پر سپری کی رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔ اسی وجہ سے حکومتیں بحران کے باوجود اسلحہ خریدنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ یہ بات خطرناک ہے۔ اس رحجان کا خاتمہ اور تدارک  ہونا چاہیے۔

مترجم: فرقان احمد