عالمی نثری ادب

وہ کتاب جو آپ کے جمالیاتی ذوق کی ترجمان ہو، جسے آپ جا بجا ڈھونڈتے پھر رہے ہوں اور تلاش بسیار میں دن رات ایک کر رکھا ہو اگر اچانک ایک روز یہ مژدہ جاں فزا ملے کہ آپ کا ایک نہایت مخلص دوست، وہی کتاب آپ کو بطور تحفہ دینا چاہتا ہے اور پھر اس کی ایک دونہیں بلکہ تینوں ہی جلدیں بھیج رہا ہو تو  آپ کی کیا حالت ہو گی؟

میں سمجھتا ہوں کہ ایسی غیر متوقع خوشیاں جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔ وثوق سے اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ان دنوں میرا بھی کچھ یہی حال ہے اور میں دل تھامے ان کتابوں کو ایک ٹک تکے جا رہا ہوں، کبھی ورق گردانی کرتا ہوں، کبھی شیلف میں سجا کر دیکھتا ہوں تو کبھی کاغذ کی خوشبو سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ان کتابوں کی خوبصورتی کو سراہتا ہوں۔ میری حالت کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں جنہیں مال و دولت کی ہوس بھی فقط اس لئے ہوتی ہے کہ اس سے کتابیں حاصل کی جا سکیں۔

کہا جاتا ہے کہ سفر کے تجربات انسان کو جس قدر ادراک، بصیرت اور وسیع النظری عطا کرتے ہیں، اسے برس ہا برس کی ریاضت سے بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ گو گزرے زمانوں کے مقابلے میں سہولیات کی فراوانی ہے مگر دنیا بھر کا سفر اب بھی آسان نہیں۔ لیکن لگن سچی ہو تو  کم وبیش ادراک و بصیرت کی یہی سطح اپنے گھر کے ایک آرام دہ کونے میں بیٹھ کر دنیا کے بہترین ادیبوں کے مشاہدات اور ان کے تخیل کا حصہ بن کر، ان کے تجربات کے طفیل، ان کی تہذیب و تمدن سے آگہی کے زریعے بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ جب ہم دنیا کہ کسی خطے کا ادب پڑھتے ہیں تو تخیل میں اس کی سیر کرنے لگ جاتے ہیں، اور وہاں کے لوگ اور انکا رہن سہن ہمارے سامنے کھلنےلگ جاتا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ کچھ ایسا ہی تجربہ تحفے میں موصول ہونے والے تین جلدوں پر مشتمل 'عالمی نثری ادب' کے ان مجموعوں سے حاصل  ہوگا جن میں ۷ براعظموں، ۸۵ ممالک اور ۷۲ زبانوں کی ۱۴۲ کہانیوں کے علاوہ ڈرامے، مضامین، خود نوشت، یادیں اور انٹرویوز شامل ہیں۔ ان میں دنیا بھر کے تمام لسانی خطوں، ان سے منسلک علاقوں، زبانوں اور ثقافتوں کے نمائندہ نثری ادب کے خوبصورت فن پاروں کے اردو تراجم موجود ہیں۔

جاپان کے موراکامی ہوں، ترکی کے اورحان پاموک، مصر کے نجیب محفوظ ہوں یا قد آور روسی ادیب چیخوف اور دوستوئفسکی۔ امریکہ سے ہیمنگ وے اور یورپ سے موپساں، زاں پال سارتر اور میلان کنڈیرا ہوں، برطانیہ سے جارج آرویل اور ورجینیا وولف ہوں، جنوبی امریکہ سے گارشیا مارکیز یا ہمارے جنوبی ایشیا کی کسی بھی علاقائی زبان کے مشہور ادیب، غرضیکہ دنیا کا ہر عظیم ادیب آپ کو ان کتابوں میں ملے گا۔

سونے پر سہاگہ، اشعر نجمی کے اس عمدہ انتخاب کو چار چاند لگاتے مترجمین بھی وہ ہیں کہ خود جن کا شمار اردو ادب کے افق پر موجود  درخشاں ستاروں میں ہوتا ہے۔ ان میں سرفہرست سعادت حسن منٹو، غلام عباس، شاہد احمد دہلوی، نجم الدین احمد، محمد حمید شاہد، مستنصر حسین تارڑ، اجمل کمال اور عمر میمن جیسے بڑے نام شامل ہیں۔

یہ چائے کی چسکیوں کی طرح لطف لیتے ہوئے دھیرے دھیرے پڑھنے والی کتابیں ہیں جو ان لوگوں کو تو ضرور پڑھنی چاہئے جو معاشرے کی نشونما میں ادب کا کردار ضروری سمجھتے ہیں، کیونکہ جو قومیں زبان و ادب کو فالتو چیز سمجھتی ہیں بقول روسی ناول نگار الیکزاندر ایساوچ کے

"وہ جلدی بوڑھی ہوجایا کرتی ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں سے کوئی بات کیے بغیر ہی مرجایا کرتی ہیں۔"