عالم رنگ و نغمہ میں کیف بہت سہی مگر
عالم رنگ و نغمہ میں کیف بہت سہی مگر
بے خود سیر کائنات اپنی طرف بھی اک نظر
ان کی بھی آنکھ ہو گئی جوش الم سے آج تر
میں نے اٹھائی کیوں نگاہ عالم درد میں ادھر
یوں نہ پہنچ سکے گا تو ان کی حریم ناز میں
عشق کی تیغ تیز سے عقل سے پہلے جنگ کر
شکل حسیں دکھائے جا پردۂ درمیاں اٹھا
شوق مرا ہے پارسا عشق مرا ہے معتبر
میرے تمیز شوق کو ایک زمانہ چاہئے
تیرا لہو ابھی ہے سرد میری نوا ہے گرم تر
آہ شراب شوق کا کیف بہت عجیب ہے
وہ ہیں کہ مجھ سے بے نیاز اور میں ان سے بے خبر
تیری فغاں نے کر دیا سینۂ گل کو چاک چاک
اخترؔ خوش نوا خموش اخترؔ خوش نوا ٹھہر