آخری آدمی والے انتظار حسین

"اے میرے عزیز !!

تُو نے غلط قیاس کیا۔ میرے پاس بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔میں اگر جانتا ہُوں تو بس اتنا کہ

:ایک وقت کشتیاں جلانے کا ہوتا ہے اور ایک وقت کشتی بنانے کا۔

وہ وقت بہت پیچھے رہ گیا جب ہم سے اگلوں نے ساحل پہ اُتر کر سمندر کی طرف پشت کر لی تھی اور اپنی ساری کشتیاں جلا ڈالی تھیں۔ اَب بِپھرتا  سمندر ہمارے پیچھے نہیں ، ہمارے سامنے ہے۔اور ہم ہیں کہ ہم  نے کوئی کشتی نہیں بنائی ہے۔"

انتظار حسین

07 دسمبر: یوم ولادت ناول نگار ، افسانہ نگار ، کالم نگار انتظار حسین

انتظار حسین 7 دسمبر 1925ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ میرٹھ کالج سے بی اے کیا۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور میں قیام پزیر ہوئے جہاں جامعہ پنجاب سے ایم اے اردو کرنے کے بعد وہ صحافت کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔ پہلا افسانوی مجموعہ "گلی کوچے " 1953ء میں شائع ہوا۔ روزنامہ مشرق میں طویل عرصے تک چھپنے والے کالم" لاہور نامہ" کو بہت شہرت ملی۔ اس کے علاوہ ریڈیو میں بھی کالم نگاری کرتے رہے۔ افسانہ نگاری اور ناول نگاری میں ان کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ ان  کی کتابوں میں سے "بستی" اور "خالی پنجره" کا سمیرا گیلانی نے فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔

انتظار حسین اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اسلوب اور بدلتے لہجوں کے باعث پیش منظر کے افسانہ نگاروں کے لیے بڑا چیلنج تھے۔ ان کی اہمیت یوں بھی ہے کہ انہوں نے داستانوی فضا، اس کی کردار نگاری اور اسلوب کا اپنے عصری تقاضوں کے تحت برتاؤ کرنا چاہا۔ ان کی تحریروں کو پڑھ کر حیرت کاایک ریلا سا آتا ہے جس کی بنا پر ان کے سنجیدہ قارئین کے پاؤں اکھڑ جاتے ہیں۔ ان کی خود ساختہ صورت حال حقیقت سے بہت دور ہے۔ اس طرح کی صورت حال ، تخیل کے حوالے سے یورپ میں سامنے آئی۔

ان کی تحریروں کی فضا ماضی کی  داستانوں کی بازگشت ہے۔ ان کے یہاں پچھتاوے، یاد ِ ماضی، کلاسک سے محبت، ماضی پرستی، ماضی پر نوحہ خوانی اور روایت میں پناہ کی تلاش بہت نمایاں ہے۔ پرانی اقدار کے بکھرنے اور نئی اقدار کے سطحی اور جذباتی ہونے کا دکھ اور اظہار کے ضمن میں بہت سی جگہوں پر انداز اور لب و لہجہ ترش ہو جاتا ہے

وہ علامتی اور استعاراتی اسلوب کو نت نئے ڈھنگ سے استعمال کرنے والے افسانہ نگار تھے، لیکن اپنی تمام تر ماضی پرستی  کے باوجود ان کی تحریروں میں ایک عجیب طرح کا سوز اورحسن ہے۔ اس میں ویسی ہی کشش ہے جو چاندنی راتوں میں پرانی عمارتوں میں محسوس ہوتی ہے۔

انتظار حسین کا فن عوامی نہیں۔ انہوں نے اساطیری رجحان کو بھی اپنی تحریروں کا حصہ بنایا۔ ان کے افسانوں کے اسرار معلوم کرنے کے لیے وسیع مطالعہ کرنا بھی لازمی ہے۔ ہجرت کے حوالے سے ایک خاص طرح کا تناؤ انتظار حسین کے ہاں جاری و ساری ہے۔ اس صورت حال سے وہ خود کو منطقی طور پر الگ نہیں کر سکے۔ انہیں زندگی کی ظاہری بناوٹ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی البتہ باطن میں جو حالت درپیش ہوتی ،اس کا وہ خاص  خیال رکھتے۔ یہی باطن کی غوطہ زنی اور اسلوبیاتی تنوع انتظار حسین کی پہچان ہے۔ لیکن وہ اسے فکری اور نظری پسماندگی کا نام بھی دیتے ہیں۔ ایسے میں وہ فرد کی انفرادی سطح پر اخلاقی جدوجہد کو بے معنی قرار دیتے ہیں۔ یہی موضوعاتی اور اسلوبیاتی سطح وہ مقام ہے جہاں پر انتظار حسین ،افسانے کے پیش منظر میں داخل ہوتے نظر آتے ہیں۔

انتظار حسین کی تصانیف مندجہ ذیل ہیں

 آگے سمندر ہے، بستی،  چاند گہن، دن۔ (ناولٹ)، افسانے، ترميم، آخری آدمی، خالی پنجرہ، خیمے سے دور، شہر ِافسوس، کچھوے، کنکرے، گلی کوچے،چراغوں کا دھواں، دلی تھا جس کا نام ، جل گرجے (داستان) ، نظریے سے آگے (تنقید)

"ترمیم"(انتظار حسین کی آپ بیتی) ،

جبکہ ان کے رقم کردہ  ڈرامے یہ تھے۔

خوابوں کے مسافر

درد کی دوا کیا ہے؟

نفرت کے پردے میں

پانی کے قیدی

 

ستمبر 2014ء کو آفیسر آف دی آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز، حکومتِ فرانس کی طرف سے نوازا گیا۔

انتظار حسین پاکستان کے پہلے ادیب تھے جن کا نام مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا ۔

انھیں حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے پاکستان کے سب سے بڑ ے ادبی اعزاز کمال فن ادب انعام سے نوازا تھا۔

انتظار حسین کا 2 فروری 2016ء کو مختصر علالت کے بعد انتقال ہوا اور 3 فروری کو انہیں سپرد خاک کیا گیا۔