آخری آدمی
بجھا دو
لہو کے سمندر کے اس پار
آئنہ خانوں میں اب جھلملاتے ہوئے قمقموں کو بجھا دو
کہ دل جن سے روشن تھا اب ان چراغوں کی لو بجھ چکی ہے
مٹا دو
منقش در و بام کے جگمگاتے
چمکتے ہوئے سب بتوں کو مٹا دو
کہ اب لوح دل سے ہر اک نقش حرف غلط کی طرح مٹ چکا ہے
اٹھا دو
لہو کے جزیرے میں
بپھری ہوئی موت کے زرد پنجوں سے پردہ اٹھا دو
کہ اب اس جزیرے میں
لاشوں کے انبار بکھرے پڑے ہیں
فضا میں ہر اک سمت
جلتے ہوئے خون کی بو رچی ہے
وہ آنکھیں جو اپنے بدن کی طرح صاف شفاف تھیں
اب ان درختوں پہ بیٹھے ہوئے چیل کوؤں گدھوں کی غذا بن چکی ہیں
یہ سولہ دسمبر کی بجھتی ہوئی شام ہے
اور میں
اس لہو کے جزیرے میں جلتا ہوا آخری آدمی ہوں