آج ان کا مزاج برہم ہے
آج ان کا مزاج برہم ہے
یا مقدر میں ایک نیا خم ہے
چلتے چلتے میں تھک گیا لیکن
رات باقی ہے روشنی کم ہے
کوئی تنہائی سی ہے تنہائی
چار سو ایک ہو کا عالم ہے
ساقی چپ چاپ میکدہ سونا
ساز کی لے بھی آج مدھم ہے
داغ دل کے دکھاؤں میں کس کو
اپنا اپنا ہر ایک کا غم ہے
دل کے آئینے میں جہاں دیکھا
گویا دل ایک ساغر جم ہے
چولی دامن کا ساتھ ہے ان کا
زندگی ہے جہاں وہاں غم ہے
آشیانے کا اب خدا حافظ
باغباں کا مزاج برہم ہے
کون خوش بخت آج یاد آیا
آنکھ کیوں یہ تمہاری پر نم ہے
آتے ہوں گے حبیبؔ وہ شاید
درد پہلے سے آج کچھ کم ہے