آج بھی ابر مسرت آنسوؤں میں ڈھل گیا

آج بھی ابر مسرت آنسوؤں میں ڈھل گیا
پھر بھری برسات میں دل کا نشیمن جل گیا


جستجوئے شب بجھاتی تو میاں کچھ خیر تھی
روشنی کا کارواں چشم سحر میں کھل گیا


صاحب مرہم تری جب سے ہوئی چشم کرم
ایک ذرا سا آبلہ ناسور بن کر پھل گیا


کیا خبر تھی جھالا باری مہرباں ہوگی ابھی
پیڑ سمجھا تھا یہی طوفان آ کر ٹل گیا


کچھ سمجھ آتا نہیں ترک وفا کیسے کروں
آستین آرزو میں پھر سنپولا پل گیا


روبرو ساحلؔ ہے لیکن اب بھلا کیا فائدہ
سیر طوفاں کرتے کرتے جسم سارا گل گیا