آئنوں میں عکس بن کر جن کے پیکر آ گئے

آئنوں میں عکس بن کر جن کے پیکر آ گئے
حلقۂ تنہائی سے وہ لوگ باہر آ گئے


سائباں نے تپتے سورج سے ملائی کیا نظر
ان گنت سورج مرے کمرے کے اندر آ گئے


قینچیوں کو پھر نئے سر سے ملیں گے مشغلے
پھر اڑانوں کے لیے بازو میں شہ پر آ گئے


وحشتوں کی داد کو محتاج ہی رہتے مگر
اس حویلی سے گزرنا تھا کہ پتھر آ گئے


مشعل راہ محبت ہیں مرے نقش قدم
جن پہ چل کر منزلوں تک آج رہبر آ گئے


عشق کی پابندیاں بے کار ہو کر رہ گئیں
ہم تصور میں کسی کے ہونٹ چھو کر آ گئے


آئنے الفاظ کے سلطانؔ کرتے ہیں کمال
بل جبینوں پر پڑے ہاتھوں میں خنجر آ گئے