آدمی اور لباس

ملا نصیر الدین کو کسی نے کهانے کی دعوت دی ۔  ملا صاحب ملنگ آدمی تهے ،کهیتوں میں کام کر رہے تهے کہ دعوت کا وقت ہوا اور وہیں سے چل پڑے ، دعوت والے گهر پہنچے تو دیکها کہ اچهی خاصی تعداد میں لوگ آ اور جا رہے ہیں ۔ ملا صاحب بهی اندر جانے لگے تهے کہ دربان نے روک لیا ، اور کہا کہ چل ہٹ فقیر ، تُو  کہاں گھسا  جارہا ہے ؟

یہاں وہی لوگ جاسکتے ہیں جنہیں بلایا گیا ہے ،تُجھ  کسان  ، فقیر ، بھکاری  ٹائپ انسان کا یہاں کیا کام؟

ملا صاحب وہیں سے واپس ہوگئے ، اور گهر جاکر اپنا لباس ، شیروانی وغیرہ پہنی اور دبنگ انداز سے دعوت والے گهر جا پہنچے ، دربان نے انہیں نہیں پہچانا اور " سر سر سر ، آئیے آئیے آئیے ، تشریف لائیے"  کہہ کر اندرلے گیا  ۔

 ملا صاحب اندر گئے ، دسترخوان پر براجمان ہوئے اور اپنی شیروانی کی ایک بازو پلیٹ میں لٹکا دی ۔

لوگ حیران ہوئے ملا صاحب کیا کر رہے ہیں ، اتنے میں میزبان تشریف لے آئے اور فرمانے لگے کہ

" ملا صاحب اے کی کردے او سرکار ؟ کهانا کیوں نہیں کها رہے ؟"

ملا صاحب نے فرمایا کہ " دعوت کپڑوں کی ہے تو  مَیں کیسے کهانا کها سکتا ہوں "

بالکل یہی سوچ ہمارے معاشرے کی بهی ہے ، بڑی گاڑی ، بنگلہ ، پیسہ ، سٹیٹس فلاں فلاں  اور انہی چیزوں کی وجہ سے معاشرہ آپ کے ساتھ ڈیل کرے گا ، یہ ساری چیزیں موجود ہوں تو ہر کوئی سر سر بولے گا۔   انسان بے شک خود کسی قابل نہ ہو ،  لیکن  اس  کے پاس پیسہ ہو،  چاہے وہ خود  دو ٹکے  کا بهی نا ہو ، دنیا اسے جھک کر سلام کرے گی ۔ یہی عزت کا معیار ہے ہمارے معاشرے کا۔ 

انٹر میڈیٹ میں آپ سب  نےمنشی پریم چند کا افسانہ ، "ادیب کی عزت" تو پڑھ ہی رکھا ہو گا۔

آج ایک دوست سے بات ہو رہی تهی ، کہنے لگے کہ ہمارے معاشرے میں عجیب و غریب معیار اور کسوٹیاں  مقرر ہوگئی ہیں ۔

انسان  نے شلوار قمیص پہنی ہو ، داڑھی لمبی ہو ، کلین شیو اور ممی ڈیڈی نا دکھ رہا ہوں ، بائک پر ہو یا پیدل چل رہا ہو، بڑی بڑی باتیں  نا کر   رہا ہو ، اس کے پاس گاڑی نہ ہو  یا  وہ خود  سوٹڈ  بوٹڈ   نا  ہو تو  یہ دنیا والے اسے کچھ سمجھتے ہی نہیں ، کوئی گھاس ہی نہیں ڈالتا ۔یہ  بظاہر اچهے لیکن عجیب معیار ،  ہمارے معاشرے کا حصہ بنتے جارہے ہیں جو شاید  ایک مہذب معاشرے کے حق میں  بہتر نہیں ، ہمیں ان معیارات کے سدباب کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔