آڑھتی اوراس کابیٹا

گھنگھروئوں کی آواز کب تھمی۔ناچتے پائوں کب رکے اور تھرکتاجسم کب ساکت ہوا۔ وہ نہیں جانتا اس کے لیے ہر شے ابھی تک حرکت میں تھی۔ وہ خود کہیں ٹھہرا ہوا تھا مگر گھوم رہا تھا۔ دائرے میں ناچتے جسم کے ساتھ یہاں، وہاں۔
اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں مگر وہ سویا، سویا تھا۔اسے پتا نہیں چل سکا،مبہوت کردینے والے منظرمیں وہ اکیلا تھا یا اس کے ساتھ دوسرے لوگ بھی تھے۔ وہ ان کی موجودگی کو محسوس نہیں کرسکا مگر لگتا تھا کہ وہ تھے۔ وہ کہاں تھے؟وہ اکیلا کیوں نہیں تھا؟اور دوسرے کیوں موجود تھے؟
صحن میں روشنی دیکھ کر وہ چونکا۔صبح ہوگئی۔گلی میں تعمیر ہونے والے مکان کی تیسری منزل کو دیکھ کر اس نے سوچا۔اتنا اونچا مکان بنانے کا فائدہ۔اسے لگا، ہمارا دو منزلہ مکان کہیں گم ہوگیا۔ اب تو ہر طرف پڑوسیوں کا مکان دکھائی دیتا ہے۔
اس نے جسم پر کھیس لپیٹتے ہوئے صحن میں پُھدکتی چڑیوں کو دیکھا تو مسکرادیا۔ خالی چارپائیوں پر سمٹے ہوئے بستر دیکھ کر اس نے سوچا۔چھوٹے بہن بھائی نیچے اتر گئے۔شاید نماز پڑھ چکے ہوں۔ اب تلاوت کررہے ہوں گے۔ اس نے ابا کی تلاوت سننے کی کوشش کی ۔وہ لہک لہک کر پڑھتے تھے۔ ان کی آواز بھدی اور گونج دار تھی۔
اسے دھیما شورسنائی دیا۔ اس نے حیرت سے کروٹ بدلی۔ کھڑکھڑاتے بجلی کے پنکھے کو دیکھا۔ شور میں نسوانی اورمردانہ آوازیں ملی جلی تھیں۔ اس نے آنکھیں بند کرکے ذہن میں جھانکنے کی کوشش کی۔ یہ آوازیں گھنگھروئوں اور زمین پر تھرکتے پیروں کی آوازوں سے مختلف تھیں۔شاید یہ دوسرے لوگ تھے جو شور مچا رہے تھے۔مگر وہ کہاں تھے اور کیوں تھے؟
اس نے زور سے آنکھیں میچتے ہوئے دانتوں تلے ہونٹ کاٹ لیا۔ درد کی سسکی لیتے ہوئے اس نے کھیس اُتارپھینکا۔دائرے میں ناچتے جسم بھی ایک سے زیادہ تھے۔ اسی لیے… اس نے کھاٹ کی لکڑی پر جھکتے ہوئے زمین کو گھورا۔چیونٹیاں اِدھر اُدھر بھٹک رہی تھیں۔ اس نے خود کو ملامت کیا۔ وہ دوسرا جسم کیوں نہ دیکھ سکا؟وہ کیوں اس سے بے خبررہا۔
ایک بار پھر اس نے ہونٹ کاٹا۔خون رسنے لگا تھا۔ انگلی سے چھونے پر زخم سُلگ اُٹھا۔
وہ کھاٹ سے اترنے لگا۔ اسی وقت سیڑھیاں پھلانگتے قدموں کی دھپ دھپ سُنائی دی۔
’’امی نے بلایا ہے۔ ابّا نے تجوری لوٹ لی۔‘‘ اس کا چھوٹا بھائی ہانپتے ہوئے بولا۔
’’آتا ہوں۔‘‘اس نے جماہی لیتے ہوئے کہا۔
اس نے کٹے ہوئے ہونٹ پر زبان پھیری۔خون کا ذائقہ محسوس کرتے ہوئے اس نے زبان کو منہ سے باہر گھمایا۔ پھر زمین پر تھوکنے لگا۔
وہ کھاٹ سے اتراتو اسے چھوٹے بھائی کا دوسرا جملہ یاد آیا۔’’ابّا نے تجوری لوٹ لی۔‘‘
یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی۔وہ پہلے مسکرایا۔پھر ہنسنے لگا۔لیکن یہ کس طرح ممکن ہے۔ آج ابو کی تلاوت کی آواز بھی نہیں سُنائی دی۔ وہ سیڑھیوں تک گیا۔ اُسے ماں کے بین سُنائی دیے۔ اس نے قمیض اُٹھا کر ناف کو انگلی سے دبایا۔
غسل خانے سے نکل کر اس نے خود کو بہتر محسوس کیا۔
سیڑھیوں کے نیچے باورچی خانہ تھا۔ اس نے خالی چوکیوں اور چائے کی آدھی پیالیوں کو دیکھا۔
اس نے صحن پر نگاہ ڈالتے ہوئے ایک ادھ بھری پیالی اُٹھائی اور ایک ہی گھونٹ میں چائے پی گیا۔
کمرے میں اس کی ماں، اس کے باپ کی داڑھی نوچتے ہوئے ماتم کررہی تھی۔ چھوٹے بہن بھائی کونے میں سہمے کھڑے تھے۔
وہ کمرے میں داخل ہوا تو ماں اس کے ساتھ لپٹ گئی۔ ماں کے بوجھ سے وہ ڈگمگایا لیکن سنبھل گیا۔ اس نے ماں کی پکار نہیں سُنی۔ وہ اس کے بالوں کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگا۔ابھی تک ماں کے سارے بال کالے ہیں۔اس نے خود کو خیال کے بے تکے پن پر ملامت کیا۔
اس کے باپ نے عجیب نظروں سے اسے گھورا۔اس نے زور سے سانس کھینچا پھر سرجھکالیا۔
آج ا بّا کتنے معصوم لگ رہے ہیں۔ اسے لگا کہ وہ بس ابھی بچّے کی طرح رودیں گے۔ اس نے بہ مشکل خود کو مسکرانے سے روکا۔اس نے ا بّاکی نُچی ہوئی داڑھی کو دیکھاتو اس کی ہنسی چھوٹ گئی۔ داڑھی کی جھالر گردن سے جاملی تھی۔
اس کی ماں بین کررہی تھی۔’’راتوں کو بستر پر کروٹیں لیتے رہتے تھے۔ میں سمجھی کہ کوئی کاروباری پریشانی ہوگی۔ بار بار کھاٹ سے اترتے، پانی پیتے، صحن میں ٹہلتے،دروازہ کھول کر گلی میں بھی نکل جاتے۔ مجھے کیا پتا تھا،یہ کس کرید میں ہیں۔کل رات بھی انھیں وہی بے چینی تھی۔ نجانے اس موسیقی میں کیا جادو تھا، دیوانے ہوگئے یہ اور دیکھو، اس عمر میں۔ بس میری آنکھ لگ گئی اورانھیں موقع مل گیا۔ ہوش وحواس گم ہوگئے ان کے، میں کیوں سو گئی نصیبوں جلی، یہ تمھیں گالیاں نکالتے تھے،چور تو ان کے اپنے دل میں تھا۔‘‘وہ شور مچاتی رہی،پھر نڈھال ہوکر پلنگ پر جاگری۔
اس نے لا تعلّقی سے کھلی ہوئی تجوری کو دیکھا۔ اس میں کاروباری کھاتے اور جائیداد کے کاغذات بکھرے پڑے تھے۔
اسے یاد آیا، وہ کل ہی گندم سے ہونے والی آمدنی گھر لایا تھا۔
باپ کے لیے اس کے دل میں نفرت نہیں تھی، ہمدردی بھی نہیں تھی، وہ اسے ان کسانوں جیسا لگ رہا تھا،جو دوکان پر قرض مانگنے آتے تھے۔ باپ کی خاموشی کے پیچھے اس نے ڈھیٹ اعتراف ِ جرم کو محسوس کیا۔
’’وہ تو میں جاگ اُٹھی۔دیکھا تو چار پائی خالی تھی، دروازہ کھلا ہوا تھا،میں نے گلی میں جھانک کر بند کرلیا۔وضو کرکے جاء نماز لینے اندر گئی تو تجوری کھلی ہوئی تھی، تالا ٹوٹا ہوا تھااگر مجھ سے چابی مانگ لیتے تو کیا نہ دیتی۔ اور دیکھو، اِدھر اذان ہوئی، اُدھر یہ حج سے لوٹے۔‘‘ ماں نے پلنگ سے اُٹھتے ہوئے کہا۔
’’اب کیا ہوسکتا ہے۔‘‘اس نے ماں کے نزدیک ہو کر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔
کندھے پر ہاتھ رکھ کر وہ ماں کو باہر لے گیا۔
اسے تشویش ہونے لگی تھی۔ دائرے کے باہر دوسرے لوگوں میں اس کا باپ بھی شامل تھا۔
وہ ہنسا مگر اس کی پیشانی سے پسینہ بہنے لگا۔
باورچی خانے میں اس کی ماں نے گرم چائے کی پیالی اس کی طرف بڑھائی۔
چھوٹے بہن بھائی بھی چوکیوں پر بیٹھ گئے۔


وہ آج منڈی نہیں گیا۔ اپنے کمرے میں کھاٹ پر لیٹا رہا۔
تمام دن سُونے ہوگئے تھے اور تمام چیزیں بے کشش۔صبح سے شام تک تیز دھوپ چھائی رہتی۔ کبھی کبھار گرم ہَوا مٹّی اور کچرے کو ہلا جُلا دیتی۔آسمان کی نیلاہٹ سفیدی میں تبدیل ہوجاتی، سورج اپنا بھیانک منہ کھولے زمین پر آگ برساتا رہتا۔ زمین کی ہرشے سُلگ اُٹھتی۔بھبھک کر بھڑ بھڑ جلنے لگتی۔ وہ محسوس کرتا کہ گلیوں، بازاروں اور میدانوں سے آدمی ختم ہونے لگے۔ گدھوں، کتّوں اور اُونٹوں نے ویرانی بڑھا دی۔ کوئی دھتکارنے والا بھی نہیں۔
وہ دن بھر زرعی ادویات اور کھاد کی بساند میں رَچی دوکان پر جمائیاں لیتا رہتا۔ وہ بے دلی کے ساتھ اُدھار مانگنے والے زمینداروں اورکسانوں سے مول تول کرتا، وہ انھیں کم رقم لینے پر آمادہ کرنے کے بجائے ان کی حسب ِمنشا رقم دے دیتا، وہ انھیں روپوںکے بجائے کھاد اور زرعی ادویات لینے کی ترغیب نہیں دلاتا۔دوکان پر ملنے والے بھی آتے رہتے، وہ کچھ دیر بیٹھتے، ٹھٹھہ مخول کرتے، پھر آنکھیں مچمچاتے اور لمبے سانس بھرتے اُٹھ جاتے،اس کا باپ دوپہر سے پہلے ہی تخت پر حقّہ پیتے پیتے سُوجاتا۔دوکان کے دوسرے کام منشی زوار حسین نے سنبھال رکھے تھے۔
وہ دوکان پر مکھیوں کی بہتات سے پریشان رہتا۔ دروازے، کھڑکیاں، میز اور کرسیاں صفائی کے باوجود سیاہ پڑنے لگے۔ اس نے کئی بار تھا یوڈان کے اسپرے سے مکھیوں کو ہلاک کرنے کے بارے میں سوچا۔جب اس نے اپنے خیال کا اظہار کیا تو اس کا باپ اس کے درپے ہوگیا۔ نقصان برداشت کرنا اس کے بس میں نہیں تھا۔
وہ حیرت میں گم وجہ تلاش کرتا رہتا۔ گڑُھ کا سیزن ختم ہوچکا۔ گندم سے مکھیوں کو خاص رغبت نہیں۔ شاید نالیاں بھر کے رَسنے لگیں۔ یا مٹھائی کی دوکانیں زیادہ کھل گئیں۔ وہ مکھیوں کی کثرت کے بارے میں سوچ کر ہنستا کہ یہ پہلے کیوں نہ محسوس ہوئی۔ کیا پچھلے سال مکھیاں نہیں تھیں؟اور اس سے پچھلے سال بھی۔ اسے یاد نہیں آیا۔ اس نے سنجیدگی سے غور کیا کہ اس کے باپ اور منشی زوار حسین کو مکھیوں کی کثرت محسوس نہیں ہوتی تھی، وہ دیکھتا کہ کھاتوں کے رجسٹرپر جھکے ہوئے منشی کا جسم مکھیوں سے اٹا رہتا۔ جب وہ اس کے منہ، ناک اور آنکھوں میں زبردستی گھسنے کی کوشش کرتیں، تو وہ بے فکری سے ہاتھ کی جنبش سے انھیں اُڑا دیتا۔ خراٹے لیتا اس کا باپ مکھیوں سے بالکل بے نیاز رہتا۔
وہ سوچتا۔’’اگر مکھیاں مارنا شروع کردے تو وقت باآسانی کٹ سکتا ہے۔‘‘
اس کے لیے شام کا انتظار کاٹنا مشکل تھا۔ جب اس کا باپ دھوتی سنبھالتا ظہر کی نماز پڑھنے مسجد کو بھاگتا، تو وہ منشی کو بتا کر گھر چلا جاتا اور دوپہر کے کھانے کے بعد شام تک سویا رہتا۔
اس نے کروٹ لی۔ وہ سوچ رہا تھا۔ ماں رو دھوکے چپ ہوجائے گی۔ کچھ دن روٹھی رہے گی،پھرا بّا سے من جائے گی۔وہ جانتا تھا، موت تک اس کا دل صاف نہیں ہوگا۔ وہ اپنے باپ کے متعلق سوچتے ہوئے مسکرایا۔’’میں سمجھا تھا، وہ بڈھا ہوگیا، اسی لیے نماز قرآن کی باتیں کرتا رہتا ہے۔ وہ تو مجھ سے بھی جوان نکلا۔‘‘ وہ ہنس پڑا۔اسے کھلی ہوئی تجوری اور باپ کا جھکا ہوا سر یاد آگیا۔
’’شایدہی کوئی مرد بچا ہو۔ اسی لیے دوسروں کی موجودگی محسوس ہورہی تھی۔ میری آنکھیں جسم کے ساتھ ناچ رہی تھیں۔ اس کے اعضاء کی تھرکن پہ گھوم رہی تھیں، میری گردن پہ کتنی کھجلی ہورہی تھی، جیسے چیونٹیاں رینگ رہی ہوں۔ میں نے ایک بار بھی نہیں کھجایا، پھر کان پر کوئی کیڑا چلنے لگا، میں نے پھر بھی توجہ نہیں کی۔ ایک سایہ میرے کندھے سے لگ کر کھڑا ہوگیا۔ میں نے اسے نہیں دیکھا۔‘‘باپ کی داڑھی کی جھالر اس کی آنکھوں میں ناچنے لگی۔ وہ ایک بار پھر ہنسنے لگا۔
وہ کمرے سے نکل کر برآمدے میں ٹہلنے لگا۔ نیچے سے کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔’’وہ منڈی چلا گیا ہوگا۔‘‘وہ بڑبڑایا۔
صحن میں دھوپ تھی۔ سامنے والے مکان کی بالکنی پر ایک لڑکا ٹہل رہا تھا۔وہ اسے دیکھ کر جھینپ گیا۔
وہ اس کے اناڑی پن پر مسکرایا۔اسے معلوم تھا کہ برابر والے گھر میں ایک خوب صورت لڑکی رہتی تھی۔
اس نے لڑکے کو گھورکر دیکھا تو وہ بالکنی سے چلا گیا۔ لیکن کچھ دیر بعد لوٹ آیا۔
وہ مزے سے ٹہل رہا تھا کہ سیڑھیوں میں قدموں کی آواز سُنائی دی۔
اس کی بہن اسے دیکھ کر گھبرا گئی۔ اس نے پہلے اسے، پھربالکونی والے لڑکے کو دیکھا۔
’’کسی چیز کی ضرورت تو نہیں، پانی، چائے۔‘‘
وہ بہن کی سعادت مندی پر مسکرایا۔ ’’دونوں لے آئو۔آج دوکان نہیں جائوں گا۔‘‘
وہ چلی گئی۔
اس نے دیکھا کہ بالکونی پر لڑکا پیچ و تاب کھاکر اندر چلا گیا۔
اس نے الماری سے کتاب اُٹھائی۔ جسے وہ دوبار پڑھ چکا تھا۔ کچھ دیر یونہی ورق پلٹتا رہا۔ پھر اسے پھینک دیا۔
چارپائی پر لیٹے ہوئے اس نے پیٹ کے نیچے زور سے کھجایا،پھر کروٹ لے کر کمرے کے فرش کو دیکھنے لگا۔
چہرے پر ہاتھ رَگڑتے ہوئے کھردری شیوانگلیوں میں چھبی تو وہ چونکا، دو دن ہوگئے تھے۔
’’ابھی دیر ہے۔‘‘ اس نے سوچا۔
وہ چھت والے پنکھے کو دیکھ رہا تھا کہ اس کی بہن پانی کے جگ اور چائے کی پیالی کے ساتھ اندر داخل ہوئی۔وہ دو پٹّہ درست کرتے ہوئے بولی۔’’امی نے کہا ہے، چائے پی کر نیچے آجائیں۔‘‘
اس نے جواب نہیں دیا۔ بہن کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ وہ دبے پائوں کمرے سے نکل گئی۔
چائے کی چُسکی بھرتے ہوئے اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو بالکونی میں وہی لڑکا نظر آیا۔
کچھ دیر بعد اس نے سیڑھیوں میں دوڑتے قدموں کی آواز سُنی۔


وہ شیوبنا کر،نہادھوکر نئے کپڑے پہنے گھر سے نکلا۔
باہر نکلنے سے پہلے وہ دیر تک آئینے میں اپنے چہرے اور لباس کا جائزہ لیتا رہاتھا۔شیو کی وجہ سے اس کے مرجھائے چہرے میں تازگی پیدا ہوگئی تھی۔ اس نے کڑھائی والا سفید کُرتا پہنا تھا اور اس کے پیروں میں سنہری تلے والی کھیڑی تھی۔
ابھی شام ڈھلنے میں دیر تھی۔ وہ گلی میں چلتے ہوئے حیران سا تھا۔ آج فضا کچھ خاموش تھی، کسی گیت کی لَے سُنائی نہیں دے رہی تھی۔ اس کے اندر گھنگھروئوں کی آواز تو تھی لیکن مدھم، بہت دھیمی سی۔وہ فضا میں گیت کی لے سننا چاہتا تھا۔ مگر اسے بکریوں کے ممّیا نے کی آواز سننی پڑی۔ گلی میں بچوںکاشور بھی تھا۔
گلی کی نکڑپہ حاجی یعقوب کی خالی کھاٹ دیکھ کر وہ چونکا۔اسے خیال نہ رہا۔اس نے اِدھراُدھر نگاہ دوڑائی۔’’ارے واقعی، کوئی نہیں تھا، کوئی ایک بھی۔‘‘وہ ٹھہر گیا۔ سڑک پر دور تک دیکھتا رہا۔ اسے صرف بوڑھی عورتیں، بچّے اور نابالغ لڑکیاں نظر آئیں۔ وہ تیز رفتاری سے ریلوے اسٹیشن والے میدان کی طرف چل پڑا۔
اس نے دیر کردی۔ اسے خبر بھی نہ ہوئی۔ وہ دن بھرسوتا رہا۔ وہ دوڑنے لگا۔
ریلوے اسٹیشن کے ساتھ والا میدان لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ پلیٹ فارم پر کھڑا ہوکر میدان کی طرف دیکھنے لگا۔
سب لوگ مایوس تھے، ان کے چہرے اترے ہوئے تھے اورآنکھیں بجھی ہوئی۔ ان کی بڑبڑاہٹ شور بن کر گونج رہی تھی۔
کچھ گالیاں دیتے تھے، کچھ سسکیاں بھرتے تھے اور کچھ زور سے چیخیں مارتے تھے۔
تھوڑی دیر بعد وہ دھیرے دھیرے سٹکنے لگے۔
اس نے دیکھا،میدان میں کوئی خیمہ نہیں تھا، کوئی جنگلہ نہیں تھا،کوئی موت کا کنواں نہیں تھا۔ کل رات گئے تک وہاں سب کچھ تھا اور اب کچھ بھی نہیں تھا، سوائے زمین پر قدموں کے دھندلے نشانوں کے۔
اس نے سر پکڑ لیا۔ اس کی آنکھیں بھرآئیں مگر اس نے خود کو رونے سے روکے رکھا۔
کوئی نان اسٹاپ ریل زناٹے سے گزر گئی۔ شور اٹھا، گرداڑی، پھر وہی گہری چپ۔
وہ پلیٹ فارم سے میدان میں اترا۔ وہ اس جگہ کو ڈھونڈنے لگا، کل رات جہاں سب کچھ تھا۔
’’اسی جگہ وہ دائرہ تھا۔ ہاں وہ یہیں تھا۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔’’شاید یہاں نہیں، وہاں، اس جگہ‘‘ وہ آگے بڑھ گیا۔
شام ڈھل گئی۔ اندھیرا پھیلنے لگا۔
وہ پہلے زمین پر بیٹھا، پھر جھک گیا۔
اسے گیت کی مدھر لَے سُنائی دی اور گھنگھروئوں کی جھنکار بھی۔ اس نے ناچتے پیروں اور تھرکتے جسم کو دیکھا۔ وہ زمین کے ساتھ کان لگا کر آوازوں کو سننے کی کوشش کرنے لگا۔ درحقیقت وہ جسم سے ہمکنار ہونا چاہتا تھا۔ اس کے لطیف اعضاء کو چومنا چاہتا تھا۔ وہ جن کا لمس تک نہیں پاسکا تھا۔
کُتّے کی وحشی غراہٹ سن کر وہ ڈرگیا۔ فوراً اٹھا، کپڑے جھاڑتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔
وہ سمجھ نہیں سکا کہ وہ کہاں تھا۔ میدان کے ساتھ ایک کچّے گھر میں رنگ برنگی روشنیاں چمک رہی تھیں۔
وہ کچّے مکان کی طرف چل پڑا۔اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلی ہوئی تھیں۔ وہ مکان کے نزدیک پہنچ کر ٹھہر گیا۔
لکڑی کے خستہ دروازے میں ایک موٹی بھدی عورت کھڑی ہوئی تھی۔باہر لوگوں کا ہجوم تھا۔
ایک آدمی دروازے سے باہر نکلتا تو وہ دوسرے سے پیسے وصول کرکے اسے اندر بھیج دیتی۔ اس کا دایاں ہاتھ سرخ اور سبز نوٹوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ سگریٹ پھونکتے ہوئے چلّا چلّاکرلوگوں کو اپنی باری کا انتظار کرنے کی ہدایت کررہی تھی۔
لوگ شورمچارہے تھے اور ایک دوسرے کو دھکے دے رہے تھے۔
کیکر کا ویران درخت دیکھ کر اسے یاد آگیا۔’’یہ جگہ تو دیکھی بھالی تھی۔‘‘وہ کئی بار اس کے قریب سے گزر چکا تھا۔ اس نے ہمیشہ ویران کیکر کے نیچے کھاٹ پر دو بھدی عورتوں کو ایک دوسرے کی جوئیں نکالتے ہوئے دیکھا تھا۔
وہ اس عورت کو پہچان کر مسکرایا۔’’یہ مکان ہمیشہ تاریک رہتا تھا مگر آج…‘‘
وہ بھی لکڑی کے خستہ دروازے سے اندر جانا چاہتا تھا مگر بڑھتا ہوا ہجوم دیکھ کر پلٹ آیا۔


وہ غلہ منڈی جارہا تھا۔آج گندم کی بولی کا دن تھا۔اسے دیر ہوگئی تھی لیکن وہ مطمئن تھا۔
’’اب مجھے ابّاگالیاں نہیں دے گا۔قرآن اور نماز نہ پڑھنے کی شکایت نہیں کرے گا۔شاید میرے دوستوں کو بھی بُرا بھلا نہ کہے۔‘‘وہ مسکرایا۔’’تجوری مجھے لوٹنی چاہیے تھی۔ مگر…؟اسے بینک میں جمع شدہ رقم کا خیال آیا لیکن اب کوئی فائدہ نہیں تھا۔
وہ سڑک پر پہنچا، اکا دکا جان پہچان والے نظر آئے۔سڑک پر بوڑھی بھکارنیں اور ان کی جوان بیٹیاں دندناتی پھررہی تھیں۔
ایک لڑکی اس کے پاس آئی اور راستہ روک کر کھڑی ہوگئی۔
’’پیسے دے۔مجھے پیسے دے نا!‘‘اس نے سینہ تان کر ہاتھ پھیلایا۔
اس نے جوان کسی ہوئی چھاتیوں پر نگاہ ڈالی تو اس کا جسم سنسنانے لگا۔ وہ ایک دَم پیچھے ہٹا۔
لڑکی نے قہقہہ لگایا اورآگے بڑھ کر اپنے پھیلے ہوئے ہاتھ سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
اس نے جھٹکے سے ہاتھ چھڑایا۔اور بغیر دیکھے ایک نوٹ نکال کر اسے تھما دیا۔
منڈی والا رَستہ اونٹوں اور بیلوں سے بھرا ہوا تھا۔ سارے اونٹ کھڑے تھے اور بیل اپنی گاڑیوں میں جُتے ہوئے تھے، گندم کی ایک بوری بھی نہیں اُتاری گئی تھی، کسان اور جَت قوم کے لوگ پریشانی سے اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے۔
وہ بچتا بچاتا آگے بڑھ رہا تھا۔ اپنی دوکان کے نزدیک پہنچ کر اس نے منڈی کا جائزہ لیا۔
اکثردوکانیں بند تھیں۔منشی لوگ دوکانوں کے تالے پکڑ پکڑ کر ہلا رہے تھے۔
وہ مسکراتے ہوئے دوکان میں داخل ہوا۔
اس کا باپ دونوں ٹانگیں کرسی پر چڑھائے بیٹھا تھا۔ اس کا سر حقّے کی نالی پر جھکا ہوا تھا۔اس نے کش کھینچا تو حقّے کی گڑگڑاہٹ سُنائی دی۔ اس نے بیٹے کو خفگی سے دیکھا پھر اپنا منہ دوسری طرف پھیرلیا۔
باپ کے چہرے کی عبارت پڑھ کے وہ سنجیدہ ہوگیا۔ اسے معلوم تھا۔ اب اس کا باپ زبان سے کچھ نہیں کہے گا۔
منشی زوار حسین ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے پر افسردگی تھی۔
وہ اس کے برابر والی کرسی پر بیٹھ گیا۔منشی خوشامد میں کھڑا ہوکر کھیسیں نکالنے لگا۔
اس نے آج بھی مکھیوں کی بہتات کو محسوس کیا۔ اس نے پہلے الماری میں رکھی کپاس والی دوا تھایوڈان،پھر اپنے باپ کی طرف دیکھا۔ وہ اب ہتھیلی پر نیا تمباکو مسل رہا تھا۔
منشی زوار حسین آہ بھرتے ہوئے کہنے لگا۔’’اونٹ اور بیل گاڑیاں اناج سے لدی ہیں مگر دوکانوں پر تالے پڑگئے۔ سیٹھ لوگ نجانے کدھر گئے۔‘‘ وہ مکھیوں سے اٹی عینک کو اپنی میلی قمیض سے صاف کرنے لگا۔
وہ تھایوڈان کی بوتل پر کپاس کے سفید پھول کو دیکھتے ہوئے اچانک کرسی سے اُٹھا۔وہ ہونقوں کی طرح چلتا الماری کے پاس گیا۔ پھر تھایوڈان کی بوتل نکال کر کپاس کے پھول کو گھورنے لگا۔ اس کی سفیدی بہت چمک دار لگ رہی تھی۔
معاً اس کے باپ نے قہقہہ لگایا اور دھوتی کے پلّو سے ناک صاف کرنے لگا۔
اس نے بوتل کو میز پر لاکر رکھااور کرسی پر بیٹھ کر اس پر نظریں گاڑدیں۔
اس نے ایسا چمک دار پھول کبھی نہیں دیکھا تھا، وہ کچھ دیر اپنی آنکھیں بوتل سے چپکائے بیٹھا رہا۔ پھر چونکا۔ اسے یادآرہا تھا کہ اس نے بھی کہیں ایک پھول دیکھا تھا۔ جس کی چمک دمک اس پھول سے بھی زیادہ تھی۔ یہ وہی پھول تھا، وہ جسے چھونہیں سکا۔ بس دیکھتا رہا۔ لیکن شاید وہ ایک نہیں بہت سے پھول تھے۔سر سے پائوں تک گل دستے کی صورت۔ سب رنگ ایک رنگ میں تحلیل ہوگئے تھے اور ہر خوشبو ایک خوشبو میں رَچ بس گئی تھی،وہ مسکرانے لگا۔
اس کا باپ زور سے کھانسا۔اس نے زمین پر بلغم پھینکا اوراپنا حقّہ اٹھائے تخت پر جابیٹھا۔
اس نے غصیلی نگاہ سے اپنے بیٹے کو دیکھا۔ پھر تخت پر دراز ہوگیا اور کچھ ہی دیر میں خراٹے لینے لگا۔
منشی زوار حسین نے اپنے بازو پر جمی ہوئی مکھیوں کو دوسرے ہاتھ سے سہلایا۔
وہ اس کی طرف دیکھ کر جماہی لیتے ہوئے بولا۔’’سیٹھ غلام رسول آرائیں کہتا تھا۔بیٹے۔ منشی گیری باریک فن ہے۔ تمام باریکیاں سیکھ لو۔پھر میری طرح تم بھی سیٹھ بن جائوں گے۔ میں نے باریکیاں تو سیکھ لیں مگر بے ایمانیاں نہیں سیکھ سکا۔ اسی لیے ابھی تک منشی ہوں۔‘‘وہ ہنسا اور پیٹھ کھجاتے ہوئے کہنے لگا۔’’نمک حرامی ہرکسی کو راس نہیں آتی۔ دو تین بار میں نے روڑاتو مارا، لیکن لینے کے دینے پڑ گئے۔آپ سے کیا چھپانا، اب لگتا ہے، دوسرا دھندا کرنا پڑے گا۔‘‘
’’منشی اپنا رومال کندھے پر ڈال کر چلا گیا۔
وہ دوکان کے پیچھے گودام میں اسپرے والی مشین ڈھونڈنے لگا تا کہ مکھیوں کو ہلاک کرسکے۔
اسے مشین نہیں ملی تو آکر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔
منڈی کی دوکان کے سارے منشی اس کی دوکان میں گھس آئے۔
ان کی آوازوں کے شور سے اس کا باپ نیند سے اُٹھ بیٹھا۔ وہ اپنے بلغمی لہجے میں منشیوں سے پوچھ گچھ کرنے لگا۔
وہ مختلف سیٹھوں کے نام لے لے کر ان کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔
وہ سراسیمگی سے انھیں دیکھتا رہا۔ پھر منشی زوار حسین کو دیکھ کر ہنسنے لگا۔
منشی ان سب کو باہر لے گیا اور کچھ دیر بعد اکیلا لوٹ آیا۔
چائے پی کر اس کا باپ نماز پڑھنے مسجد چلا گیا۔
منشی زوار حسین رازداری سے کہنا لگا۔’’چھوٹے سیٹھ! یہ کیا ہورہا ہے؟جانتے ہو؟صرف ایک مہینے میں سب کچھ اُجڑ گیا۔ کس لیے؟اتنی بڑی منڈی۔سارے کے سارے سودخورتھے۔ یہ بڑی بڑی داڑھیاں، ہاتھوں میں تسبیح،دھوتیاں پھٹی ہوئی۔ دیکھنے میں جٹ لگتے ہیں۔ مسجد میں جاکر دیکھ لو۔ سجدے میں گرے پڑے ہوں گے۔ کوئی نہیں بچا۔بیٹے سب کچھ لے گئے۔ میں حیران ہوں، چھوٹے سیٹھ۔ تم کیوں نہیں گئے؟‘‘وہ عینک کے شیشوں میں آنکھیں گھمانے لگا۔
اس نے پہلی بار منشی کی بات سُنی۔وہ افسردہ ہوگیا۔
اس کا چھوٹا بھائی گھر سے کھانا لے آیا۔ وہ سمجھ گیا کہ ا بّاگھر چلے گئے۔
کھانے کے بعد وہ تخت پر سو گیا اور منشی زوار حسین کرسی پر اونگھنے لگا۔
اس نے شام کو دوکان بند کی تو اپنے دوستوں کے متعلق سوچ رہا تھا۔ کل سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔
وہ دوستوں کے مکانوں کے دروازے کھٹکھٹاتا پھرا۔ کوئی بھی نہیں ملا۔ ہر دوست کے گھر والے پریشان تھے۔ وہ اس سے ان کے بارے میں سوال کرنے لگا۔ کل شام سے کوئی بھی گھر واپس نہیں آیا تھا۔
وہ مایوسی میں سوچنے لگا۔’’میں بھی کیوں نہ چلا گیا۔‘‘
وہ گلوکار عظمت نیازی سے ملنے چل پڑا۔ گمشدہ گیت کی دھیمی لے اس کے اندر مچلنے لگی تھی۔
وہ گلوکار کی آواز اور اس کے سازوں سے گونجنے والی گلی کی خاموشی پہ حیران ہوا۔ وہ سیڑھیاں چڑھ کے کوٹھے پر پہنچا تو عظمت نیازی گھٹنوں میں سر دبا کر بیٹھا تھا۔بلب کی زرد روشنی میں وہ اسے سوگوار دکھائی دیا۔ وہ بالکل اکیلا تھا۔آج اس کے پاس ہارمونیم، طبلا، دف کچھ بھی نہیں تھا۔
اسے دیکھ کر عظمت نیازی اٹھا۔ گلے ملتے ہوئے اس نے اپنا سر اس کے کندھے پے رکھ دیا۔
وہ مسکرایا تو گلوکار بھی مسکرا دیا۔ اس نے آنکھوں سے کمرے کے خالی پن کی طرف اشارہ کیا۔
’’یہ کیا ہوا، عظمت نیازی؟‘‘اس نے پوچھا۔
’’جب سے لائوڈاسپیکر پرگھٹیاگانوں کی دھنیں بجنا شروع ہوئیں۔ میں اسی وقت سمجھ گیا، اب خیر نہیں۔ قصبے کے لوگ پہلے ہی بد ذوق ہیں۔ کئی برسوں سے ہارمونیم اور طبلابجا رہا ہوں۔گا گا کر ہلکان ہورہا ہوں۔ کسی نے کبھی دلچسپی نہیں لی۔مجھے ہمیشہ گوٹھوں سے دعوت نامے ملے۔ ہمیشہ باہر کے لوگوں نے میری عزت افزائی کی۔مشکل سے یہاں دوچار شاگرد بنائے تھے۔ میں نے انھیں ریلوے اسٹیشن والے میدان کی طرف جانے سے منع کردیا تھا۔اسی بات پر ایک شاگرد کو نکال دیا۔ کل اچانک میری بیوی کی طبیعت خراب ہوگئی۔میں ڈسٹرکٹ ہسپتال چلا گیا۔ وہاں رات گزارنی پڑ گئی۔ آج واپس آیا ہوں تو کچھ باقی نہیں بچا۔ سب لے بھاگے سالے۔‘‘وہ چونکا۔ٹانگ کے نیچے ہاتھ مارکے سگریٹ کا پیکٹ نکالا۔پھر ایک سگریٹ کا تمباکو ہتھیلی پر بکھیرنے لگا۔
وہ زرد روشنی میں دیواروں پر لگی اداکارائوں کی کملائی ہوئی تصویریں دیکھتا رہا۔
’’مجھے بھی ایک کش دینا۔‘‘
عظمت نیازی نے قہقہہ لگایا۔’’ابھی تک جادو کا اثر باقی ہے۔ اسی لیے یار اداس لگتا ہے۔ میں نے سب کچھ سُنا ہے۔ سب جانتا ہوں۔شاید میں اکیلا پاپی ہوں، جس نے گناہ نہیں کیا۔‘‘ وہ ہنسی میں لوٹنے لگا۔
وہ بھی اس کے ساتھ ہنس پڑا۔
اگلے دن وہ باپ سے پہلے دوکان پہنچ گیا۔
منشی زوار حسین پرانے زنگ آلود تالے کھول رہا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر چونکا، پھر کھی کھی کرنے لگا۔
’’آج تو سورج مغرب سے نکل آیا۔ خیریت تو ہے ناچھوٹے سیٹھ۔‘‘وہ تالے کنڈیوں میں اٹکا کر دروازے کے پٹ بھیڑتے ہوئے بولا۔
وہ دوکان میں داخل ہونے لگا تو منشی نے ہاتھ سے روک لیا۔’’ابھی جھاڑو دینی ہے سرکار! تھوڑی دیر اور ٹھہرجائیں۔‘‘
’’صفائی بھی تم کرتے ہو؟‘‘اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’نئی بات نہیں ہے چھوٹے سیٹھ!بیس برس ہوگئے۔‘‘اس نے شتابی سے آستینیں چڑھائیں اور جھاڑو اُٹھا کر فرش پر پھیرنے لگا۔
وہ بیرونی احاطے میں ٹہلتا رہا۔ اس کی دوکان ایسے کونے پر واقع تھی جہاں سے پوری منڈی کا منظر دکھائی دیتا تھا۔ ایک بہت بڑے چوکور خانے کے چاروں کونوں پر دوکانیں بنی ہوئی تھیں۔ جب کہ بیچ میں خالی میدان تھا۔اکا دکا دوکانیں کھلی تھیں جب کہ اکثر بند پڑی تھیں۔میدان اونٹوں اور بیل گاڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔جانوروں کی اٹھک بیٹھک سے میدان میں گرد اُڑرہی تھی۔ ایک جانور شورمچاتا تو دوسرے بھی اس کی آواز میں آواز ملانے لگتے۔ فضا ان کے جسموں اور ان کی لیدکی بو سے آلودہ تھی۔
’’پہلے انسانی آوازوں کا شور ہوتا تھا۔ اب جانوروں کی آوازیں ہیں۔‘‘وہ مسکرایا۔
دوکان میں داخل ہوتے ہی اس نے منشی سے پوچھا۔’’یہ لوگ یہاں کیا کررہے ہیں؟ ابھی تک گئے کیوں نہیں؟انھیں پتا نہیں کہ غلہ منڈی اُجڑگئی۔‘‘
منشی رومال سے عینک صاف کرتے ہوئے بولا۔’’یہ لوگ زبان کے بندے ہیں، سرکار زبان بدلنا آڑھتیوں کو آتا ہے،یہ اس فن کو نہیں جانتے۔‘‘
’’اگر تھوڑا بہت مال ہم خرید لیں تو۔‘‘اس نے کاروباری ہوشیاری دکھانا چاہی۔
’’بڑے سیٹھ کوشش کرچکے ہیں۔‘‘وہ عینک کو ناک پر جماتے ہوئے بولا۔’’وہ ابھی تک آئے کیوں نہیں؟‘‘
’’انھیں بخار ہوگیا۔‘‘وہ منشی والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
وہ حیرانی میں سوچنے لگا کہ رات اسے نیند جلد آگئی۔ عظمت نیازی کے سگریٹ نے کام دکھادیا۔ورنہ ایک مہینے سے نیند اچاٹ ہوگئی تھی۔راتوں کو دیر سے گھر لوٹنے کے بعد کروٹیں لیتا رہتا تھا۔ کانوں میں گھنگھرو بجتے رہتے تھے اور آنکھوں کے سامنے لوچ دار دل فریب جسم رقص کرتے رہتے تھے۔ صبح کواسے اپنا جسم کسی درد سے ٹوٹا ہوا معلوم ہوتا تھا۔
’’واہ عظمت نیازی،تیری خیر!‘‘وہ بڑبڑایا۔آج وہ خود کو سبک محسوس کررہا تھا۔ اسے یاد آیا، رات جب وہ گلوکار کے کوٹھے سے اترا تھا تو اچانک قصبہ چھوڑکرجانے والوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ دوستوں کی بے وفائی پر افسردہ تھا کہ انھوں نے روانگی سے پہلے اسے اطلاع نہیں دی تھی، اس نے خود سے سوال کیا۔’’میرے دوستوں کو ان کی نقل مکانی کے’’ متعلق معلوم بھی تھا؟‘‘شاید وہ بے خبر ہوں، جب انھوں نے خیموں کو اکھڑتے دیکھا ہو تو بے اختیار ہوکر ان کے ساتھ چل پڑے ہوں۔ وہ جانتا تھا کہ دائرے میں تھرکتے ہوئے جسموں کے نظارے کے بعد ہوش وحواس کا معطل ہونا معمولی بات تھی۔
’’میرے دوست صحرا کے فریب میں آگئے۔شاید وہ ایک دوسرے کوبھی دغادے رہے ہوں۔‘‘وہ مسکرایا۔
رات کو نیند سے پہلے تک اس پر بھی تعاقب کا خیال حاوی تھا۔ اس نے اب جو سوچا تو آہ بھرکے رہ گیا۔
منشی حسب ِمعمول ہوٹل سے صبح کی چائے لے آیا۔
اس نے پیالی ہونٹوں سے لگا کر سُڑپابھرتے ہوئے پوچھا۔’’منشی کیا خیال ہے؟وہ کدھر گئے ہوں گے؟‘‘
منشی زوار حسین نے تیسرے گھونٹ میں چائے ختم کرڈالی۔وہ رومال سے منہ صاف کرتے ہوئے بولا۔’’ان کا ٹھکانہ تو کوئی ہے نہیں۔کیاپتا کدھر چلے جائیں۔ سُنا ہے، ان کا رخ جنوب کی طرف تھا۔زیادہ دور نہیں گئے ہوں گے۔چھوٹے سیٹھ۔‘‘اس نے گویا اسے جانے کی ترغیب دلائی۔
’’وہ کہاں جانے والے تھے، یہ ہمارے بڈھوں کا کیا دھرا ہے، زندگی بھر عیش کرتے رہے۔ سود کماتے رہے۔ اب مذہب کی باتیں کرتے ہیں۔ تصوف کے گیت گاتے ہیں۔ انھوں نے کسی کو بھی تنگ نہیں کیا تھا۔ وہ تو اپنا کام کررہے تھے۔ لیکن ہمارے بڈھے…‘‘اس نے نفرت سے دانت کچکچائے، پھر آس پاس دیکھتے ہوئے بولا۔’’بہت سوں کو میں نے خود وہاں پر دیکھا،رالیں ٹپک رہی تھیں۔ ختم ہوگئے ہیں۔ کچھ کرنہیں سکتے۔ اسی بات پر تائو آگیا۔مسجدوں کے لائوڈاسپیکروں سے اعلان کروانے لگے۔ مولویوں سے جمعے کے خطبے میں انھیں گالیاں دلوانے لگے۔ وہ خوامخواہ احتجاج کرتے رہے۔اعلیٰ حکام نے ٹالنے کی کوشش کی مگر انھیں مجبور کردیا گیا۔ اب دیکھ لو چھوٹے سیٹھ۔ کیسی آفتیں آرہی ہیں۔ ریلوے پھاٹک والا مکان پکا ہوگیا۔ لوگ صبح تک قطار لگائے کھڑے رہتے ہیں۔ مانگنے والیوں نے بھیک لینی چھوڑ دی۔ ان کی طلب زیادہ ہوگئی اور تو اور بوڑھی بھکارنوں کے بھی ٹھٹھ ہوگئے۔ دیکھ لو چھوٹے سیٹھ۔‘‘وہ عینک کے شیشوں میں آنکھیں گھماتے اس کی طرف دیکھنے لگا۔
وہ آج پھر مکھیوں کی بہتات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
منشی اس کے نزدیک والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ اسے بازو سے پکڑ کر جھنجوڑتے ہوئے بولا۔ ’’لوگ چپ ہیں۔ڈرسے بات نہیں کرتے۔ ہر تیسرے چوتھے گھر سے جوان لڑکی اپنے یار کے ساتھ بھاگ گئی۔ توبہ توبہ۔‘‘وہ اپنے کانوں کو ہاتھ لگانے لگا۔
اس نے میز پر پائوں پسارلیے اور جماہی لیتے ہوئے منشی کی شکن آلودپیشانی کو دیکھنے لگا۔
’’منشی کا دماغ بھی سٹھیا گیا ہے۔ اسی لیے زیادہ بکواس کرنے لگا ہے۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔
منشی زوار حسین پوری سنجیدگی سے موجودہ صورت ِ حال کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کررہا تھا۔’’رفیق مٹھائی والے کی بیوی نویں مہینے میں تھی۔ اس رات وہ خبیث اتائو لا تھا۔ اس نے بیوی کو پیل دیا۔ زچہ وبچہ دونوں فوت۔میں کل جنازہ پڑھ کے آیا ہوں۔ ہَوا میں نجانے کیا ہے؟ لوگ انسان نہیں رہے۔‘‘ وہ قمیص کے دامن سے پسینہ پونچھنے لگا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ آخری شب میں کیوں جلدی لوٹ آیا۔ میرے پاس پتے ختم ہوگئے تھے۔ زیادہ ہوتے تو صبح تک وہاں ٹھہرتا اور پھر ان کے ساتھ چلا جاتا۔ اس رات تجوری مجھے خالی کرنی چاہیے تھی۔
’’اب یہاں کچھ نہیں رہا۔میں کیا کروں گا؟‘‘اس نے پہلو بدلا۔
وہ حیرت میں سوچنے لگا کہ اس شب اس کا باپ کیوں کر لوٹ آیا۔


وہ کھاٹ پر بے سدھ پڑا تھا۔ اس کی آنکھیں کمرے کی چھت پر بھٹک رہی تھیں۔ دروازے سے دھوپ اندر گھس آئی تھی۔اس کا چہرہ اور جسم پسینے میں بھیگ گئے تھے، پنکھا صرف شورمچا رہا تھا۔اس نے ہاتھ سے چہرے کاپسینہ پونچھا۔ٹھنڈا سانس بھرتے ہوئے اس نے کروٹ بدلی۔
دیوار پر مقدس مقامات والی دو تصویریں دیکھ کر وہ مسکرایا۔ اسے عظمت نیازی کے کمرے میں لگی تصویریں یاد آگئیں۔ ایک برس پہلے وہ چند ویسی تصویریں گھرلایا تھا۔ اس نے انھیں چھپا کے رکھ دیا تھا اور پھر موقع ملتے ہی انھیں کمرے کی دیوار پر چپکا دیا تھا۔ وہ ایک فلمی اداکارا کی تین تصویریں تھیں۔ ہر تصویر میں پوز مختلف تھا لیکن لباس ایک ہی جیسا کسا کسایا تھا۔ وہ کچھ دن صبح شام ان تصویروں کو غور سے دیکھتا رہا تھا۔ ان تھوڑے سے دنوں کے لیے اس کی زندگی سے بیزاری اور تلخی مٹ گئی تھی۔ پھر ایک شام اس نے تصویروں کے پرزوں کو صحن میں اُڑتے دیکھا۔ اس واقعے کے بعد ہی اس کا باپ مقدس مقامات والی تصویریں خرید لایا تھا۔
وہ کسی ناخوشگوار احساس کے زیرِ اثر اٹھ بیٹھا۔ کچھ دیر یونہی تصویروں کو گھورتا رہا۔ پھر اس نے صحن اور سیڑھیوں کا جائزہ لیا۔ لوٹ کر دروازہ بند کیا اور کھاٹ پر چڑھ کے تصویریں اتارنے لگا ان کے چاروں کونوں پر کیلیں گڑھی ہوئی تھیں۔ اس نے انھیں کھینچ کر اُتارا۔ کونے پھٹ گئے مگر اسے پرواہ نہیں تھی۔
وہ الماری میں ماچس ڈھونڈنے لگا، کچھ دیر بعد اسے ماچس مل گئی۔
صحن والی دیوار کے سائے میں اس نے تصویروں کو جلا دیا۔ ان کی راکھ ہَوا میں نہ اُڑسکی۔ اس نے راکھ کو مٹھیوں میں دبا لیا اور جاکر لیٹرین میں بہا دیا۔
صبح کو اس کے باپ نے معاملے کو ہَوا دی تھی۔آج جمعے کا دن تھا۔ اسے نیند سے جگانے کے لیے اس نے پہلے بیٹی کو اور پھر چھوٹے بیٹے کو چھت پر بھیجا تھا لیکن وہ نہیں جاگا۔ماں کے جھنجھوڑنے پر اس نے بستر چھوڑ دیا تھا مگر ماں کے جاتے ہی پھر سوگیا۔لیٹے لیٹے وہ باپ کی گالیوں کا شور سنتارہا تھا۔ وہ اس کے ساتھ اس کی ماں کو بھی کوسنے دے رہا تھاکہ اس نے بیٹے کو کافر بنا دیا۔ اسی لیے گھر میں شیطان گھس آیا اور خدا کی رحمت چلی گئی۔
وہ کھاٹ پر جزبزہوتا رہا تھا۔ باپ کو دھاندلی نہیں کرنی چاہیے۔ ماں کو بیچ میں گھسیٹنے کی کیا ضرورت؟
جب وہ نیچے اترا تو دھوپ صحن کی دیواروں سے نیچے اتر آئی تھی۔سہمی ہوئی بہنیں کام کاج میں مصروف تھیں۔ ماں پلنگ پر دراز تھی جب کہ باپ کرسی پر بیٹھا حقّہ پی رہا تھا۔
اس نے دھیمے لہجے میں سلام کیا اور اپنی بہن سے چائے مانگی۔
اس کا باپ اسے غصیلی نفرت سے گھورتا رہا۔ پھر اچانک سینڈل ہاتھ میں لیے اس پر چڑھ دوڑا۔
وہ باورچی خانے میں چوکی پر بیٹھا رہا۔ اس نے بچائو کی کوشش بھی نہیں کی۔ بے موقع ہنسی پر وہ قابو نہیں پاسکا اور زورسے ہنسنے لگا۔
اس کے باپ کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں اوراس کی آنکھیں پیشانی تک پھیل گئی تھیں۔ اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا اور اس کا جسم غصّے میں لرزرہا تھا۔
’’بے شک مارو۔ مجھے خوب مارو۔لیکن ماں سے کچھ مت کہو۔‘‘
ہانپتا کانپتا اس کا باپ باورچی خانے سے نکلا تو اس کی ماں پہنچ گئی۔
اس کی ماں نے ہاتھ نہیں اٹھایا صرف زبان سے پلوتے دیتی رہی۔
وہ سنجیدگی سے ماں کو دیکھتا رہا۔
ماں چلی گئی تو بہن چائے کی پیالی تھماتے ہوئے اس کی غمگساری کرنے لگی۔
’’کم ازکم جمعہ کی نماز تو پڑھ لیا کرو بھیّا۔خدا کے لیے نہ سہی، امی کے لیے سہی۔‘‘
اس نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سرہلایا تھا۔
وہ اپنے کمرے میں لائوڈاسپیکروں سے نکلتی آوازیں سنتا رہا۔ بے شور چنگھاڑتی ہوئی آوازیں۔
’’کیا خدا واقعی مسجد میں رہتا ہے؟‘‘اس نے سو چا۔
پھر وہ دوسرے فرقوں کے خلاف نفرت برساتے لہجوں سے لاتعلّق ہوگیا۔
اس نے دیوار پر گرد کے خالی چوکھٹوں کو دیکھا۔ وہاں اسے تھرکتا ہوا نسوانی جسم نظر آیا۔ اس نے مچمچا کر اس جگہ کو گھورا، دھیرے دھیرے جسم کے خدوخال نمایاں ہونے لگے۔ زلفیں، سینہ، پیٹ اور ٹانگیں۔
یہ عورت دائرے میں رقص کرتی عورت سے مختلف تھی۔
اسے نوشی کی یاد آگئی۔ اس نے مسکراتے ہوئے پیٹ کو کھجایا۔


دھوپ دروازے سے باہر نکل گئی۔ ہَوا کے جھونکے کمرے کی چیزوں سے ٹکرانے لگے۔ اس نے قمیص اتاری تو پسینہ جلدی سوکھ گیا۔پنکھے کی ہَوا بھی نیچے اتر آئی اور اس کے جسم کو تھپتھپانے لگی۔
وہ کھاٹ پر لیٹے سوچ رہا تھا۔ جب وہ یہاں تھی۔ زندگی بھری بھری لگتی تھی۔ خالی پن کے سب احساس مٹ گئے تھے۔ کوئی شوخ رنگ تھا۔ جس نے دوسرے فضول رنگوں کو چھپا دیا تھا۔ کچھ برسوں سے وہ اس کے گھر میں آتی جاتی تھی۔ وہ سمجھتا تھا کہ ماں سے ملنے آتی ہے۔ یوں بھی وہ اس کی ماں سے دیر تک سرگوشیاں کرتی رہتی تھی۔
ایک بار اس نے ماں سے اس کے بارے میں پوچھا، تو ماں نے بتایا تھا۔’’بے چاری دکھیا ہے۔ شوہر کچھ نہیں کرتا۔ اپنے دکھ سکھ کرنے آجاتی ہے۔ یہ جاننے کے بعد اس نے توجہ کرنی چھوڑ دی تھی لیکن جب وہ اپنے باپ کو اس کے پہلو میں بیٹھاہوا دیکھتا تو چونک پڑتا تھا۔
دیکھنے میں تو وہ عام گھریلو عورت لگتی تھی۔ اس نے کبھی اسے نئے کپڑوں میں نہیں دیکھا تھا۔ مگر اس کی آنکھوں اور ہونٹوں پر کھیلتی مسکراہٹ میں کچھ ایسی شے تھی، جو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ اس نے کئی مرتبہ اس کشش کو محسوس کیا تھا لیکن آگے بڑھنے سے گریز کرتا رہا تھا۔ اس وقت نسوانی جسم کے اسرار کے متعلق اس کی معلومات بھی صفر تھی۔ ہر جوان عورت میں وہ انجانی کشش محسوس کرتا تھا۔
نجانے کس طرح نوشی کے بارے میں اس کے اندر ایک یقین پرورش پانے لگا کہ بس ہاتھ بڑھانے کی دیر ہے اور اسے سب کچھ مل جائے گا۔ کئی مہینے اسی کشمکش میں گزر گئے تھے۔
اس دوران وہ اپنے باپ سے ایک مخاصمت کو خود میں محسوس کرنے لگا تھا لیکن اس میں نفرت کا جذبہ شامل نہیں تھا۔
ماں کی عدم موجودگی میں اس کے باپ کی ملاقات نوشی سے ہوتی تو وہ خوب چہکتا اور قہقہے لگاتا تھا۔ اس کی آنکھیں سکڑنے اور پھیلنے لگتی تھیں۔ منہ سے بہتے پانی کو وہ بار بار اپنی دھوتی کے پلّو سے صاف کرتا تھا۔ ایسے موقعوں پر اس کا حقّہ پڑے پڑے سرد ہوجاتا اور اسے گرم کرنا بھی یاد نہ رہتا تھا۔ اس نے کئی مرتبہ اپنے باپ کو ہنسی میں لوٹتے ہوئے نوشی کی ران پر ہاتھ مارتے دیکھا تھا۔ وہ ایسے موقعوں پر ان کے آس پاس منڈلاتا رہتا تھا۔ ان دنوں اس کا باپ اسے نا بالغ خیال کرتا تھا۔
اسے یقین تھا کہ بالغ پن کے مسئلے پر نوشی کی رائے اس کے باپ سے مختلف تھی۔ وہ نوشی کے اپنی طرف مائل ہونے کی شہادتیں جمع کرتا رہتا تھا۔ اس کا فرش پہ جھک کر اپنی چھاتیاں دکھانا، کھاٹ پر لیٹے ہوئے پیٹ سے قمیص ہٹا دینا، اپنی شلوار گھٹنوں تک اونچی کرلینا، ان باتوں کو نظر انداز کرنا اس کے لیے ممکن نہیں تھا۔
اس کی جمع کردہ شہادتوں کو اس کی بے تابیوں سے راست نسبت تھی۔ اسی لیے فیصلہ کن قدم اٹھانا اس کے لیے دشوار ہوتا چلا گیا تھا۔
اگر ایک دن نوشی خود بخود آکر گھر کی تنہائی میں دخل انداز نہ ہوتی تو شاید وہ عمر بھر شہادتوں کے جھمیلے میں پڑا رہتا۔
تھوڑے سے وقت کی ملاقات میں زندگی بھر کا جمود ریزہ ریزہ ہوگیا تھا۔
برآمدے میں نوشی کے پاس بیٹھ کر اس نے بہت باتیںکی تھیں۔ ساری بے مطلب، بے مفہوم باتیں۔ وہ بے سبب ہنستا رہا تھا۔ اس نے پہلی بار عورت کے حسن کو دریافت کیا تھا اور اس کی لطافتوں میں گم ہوگیا تھا۔
اس کا ہاتھ نوشی کی طرف بڑھتے بڑھتے رک جاتا تھا۔ اس نے کئی بار اپنی کم اعتمادی پر قہقہے لگائے تھے۔
نوشی نے جب اس کا ہاتھ پکڑا تو اس نے اپنے ہاتھ کو اس کے ہاتھ سے زیادہ نرم محسوس کیا تھا۔
اس نے نوشی کی ہتھیلی پر اپنی انگلی سے لکیریں کھینچتے ہوئے کہا تھا۔’’تمہارے ہاتھ بہت کھردرے ہیں۔ مگر خوب صورت ہیں۔‘‘
وہ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی تھی۔’’بہت کام کرنا پڑتا ہے۔‘‘
اس نے نوشی کی ہتھیلی پہ ہونٹ رکھے تو اس نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا تھا۔
وہ یک طرفہ اذیّت کو بھلا کر دو طرفہ لذت کو سمیٹنے کی خواہش میں اس کے جسم سے لپٹ گیا تھا۔
گلی کا شور سُن کر وہ ٹھٹھک گئے تھے۔ پھر ہنستے ہوئے کمرے میں جاگھسے تھے۔
نوشی نے اس کے اناڑی پن کو محسوس کرتے ہوئے اسے امتحان میںنہیں ڈالا تھا۔ اس نے خود ہی کپڑے اتار دیے اور اسے بچّے کی طرح چھاتیوں سے چمٹا کر لیٹ گئی تھی۔
وہ پہلی ملاقات میں نوشی کی فیاضی کے متعلق سوچتا رہا۔ جس نے آنے والی ملاقاتوں کے پراسرار درواکردیے تھے، اسے حیرت ہوئی کہ اس نے کبھی نوشی کے لیے محبت محسوس نہیں کی۔شاید اسے اس فضول شے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس نے کبھی اس سے کوئی تقاضہ نہیں کیا تھا۔ پھر وہ اسے اپنے گھر بلانے لگی۔ وہ اپنی مرضی سے دن اور وقت مقرر کرتی تھی۔ اس کے گھر میں اس کی حیثیت مہمان سی ہوتی تھی۔ وہ پہلے اشیا سے اس کی تواضع کرتی، پھر اپنے جسم کے ساتھ خود پیش ہوجاتی تھی۔ شروع میں اس کے گھر جاتے ہوئے اس کا ذہن اندیشوں سے بھرا رہتا تھا۔ نوشی کی حوصلہ افزائی سے اس کا اعتما بحال ہوتا گیا اور وہ اس کے گھر میں بے خوف ہو کر وقت گزارنے لگا تھا۔
’’وہ خوب صورت دن تھے۔‘‘ وہ مسکرایا۔
اُس کی بہن اس کے لیے چائے کی پیالی رکھ کر چلی گئی۔ وہ اٹھا، قمیص پہن کر چار پائی پر بیٹھ گیا۔
چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے اسے خیال آیا۔ مٹی کی اینٹوں سے بنا مختصر سامان والا کمرہ اپنی خوشبوئوں سمیت اس کے ذہن کی سطح سے غائب ہوتا چلا گیا۔ اس نے حیرت سے چار پائی کو دیکھا۔وہ چارپائی بھی اس جیسی تھی۔ نوشی ہرملاقات پر نئی پھول دار چادر بچھاتی تھی۔ جس پر ان دونوں کے ہانپتے، پسینے میں بھیگے ہو جسم سسکیاں لیتے رہتے تھے۔ اس نے نوشی کے چہرے کی آسودگی کو یاد کیا۔ اس کے جسم کے ہیجانوں کو خود میں سمولینے کے بعد بھی اس میں فرق نہیںآتاتھا۔
وہ کسمسایا۔ اس نے آخری گھونٹ بھر کے پیالی کو ہونٹوں سے علیحدہ کیا اور اسے میز پر رکھ دیا۔
وہ دن کتنی مضطرب سرگرمیوں سے بھرے ہوئے تھے، ہر لمحہ بہائو کے تندریلے جیسا تھا۔ وہ سوچنے لگا۔ نوشی کے چہرے کے نقوش اور جسم کے خال و خدوذہن سے محو ہونے لگے جو نوشی میرے اندر زندہ ہے وہ اصل سے مختلف ہے، جسموں کے بھید کھولنے والی ملاقاتیں سرسری واقعات بن کے رہ گئیں۔ ان کا موہوم تاثر بھی دھندلا جائے گا۔
وہ کمرے سے نکل کر صحن میں چلا گیا۔ سورج پڑوسیوں کے سہ منزلہ مکان کے پیچھے اترگیا تھا۔آسمان پرسرخ لکریں کھنچی ہوئی تھیں۔ پرندوں کے اکا دکا غول چپ چاپ گزرجاتے۔ ہَوا کا جھونکا کسی دیوار سے ٹکرا کے سرسراتا۔اس نے گلی کی نکڑ پے بجلی کے کھمبے کو دیکھا۔ تاروں میں پتنگ، ڈور اور ایک کو الٹک رہے تھے۔
اس نے نیچے والے صحن کی آوازیں سننے کی کوشش کی مگر کان میں گلی کے بچّوں کا شور پڑتا رہا۔
سامنے والے مکان کی بالکنی پر وہی لڑکا ٹہل رہا تھا۔
کچھ دیر بعد اس کی بہن اوپر آگئی۔ وہ اسے دیکھتے ہی اپنا دوپٹہ ٹھیک کرنے لگی۔
’’کیا ابھی تک آپ ابو سے ناراض ہیں؟‘‘وہ بالکنی پر …نظر ڈالتے ہوئے بولی۔
اس نے مسکراتے ہوئے نفی میں سرہلایا۔ وہ اس کے بھرے جسم کو دیکھ کر اس کی عمر کے بارے میں سوچنے لگا۔
وہ کمرے سے پیالی اٹھا لائی۔’’امی آپ کے لیے پریشان ہیں۔‘‘ وہ چلی گئی۔
’’میرے لیے کوئی پریشان نہیں۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔
’’زمین کی آمدن گھٹتی جارہی ہے۔ کاروبار بھی منافعے میں نہیں رہا۔ یہ میرا کیا دھرا تو نہیں لیکن سارا الزام مجھی پر آتا ہے۔ میں کاہل، کند ذہن اورنکھٹو ہوں۔ اسکول میں ڈالا گیا۔ دسویں سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ آوارہ گردوں اور لفنگوں سے میری دوستی ہے۔ میرا مزاج کاروباری نہیں۔ اسی لیے پرچون کی دوکان گھاٹے میں گئی۔ اب آڑہت بھی یوں ہی چل رہی ہے۔‘‘ وہ ہنسنے لگا۔
باپ کی غیرموجودگی میں وہ نیچے اترا۔ ماں سے چند باتیں کیں اور گھر سے باہر نکل گیا۔


وہ ریلوے اسٹیشن کی طرف جارہا تھا۔ سڑک پر دوکانیں کھلی تھیں۔ ہوٹلوں میں ٹیپ ریکارڈ پر فلمی گانے بج رہے تھے۔کرسیوں پر بیٹھے اکا دکا لوگ باتیں کررہے تھے۔ اس نے نماز کے بعد لوگوں کو مسجد سے نکلتے دیکھا تو سر جھکالیا اور چلنے کی رفتار تیز کردی۔
مسافرخانے کے پاس ایک خسرا اس کے رَستے میں آکھڑاہوا۔ اس نے نئی شام کے لیے بنائو سنگھار کیا ہوا تھا۔
وہ انگلی دانتوں میں دباتے ہوئے اس سے مخاطب ہوا۔’’ارے تم کیسے بچ گئے۔ تمہاری عمرکے تو سارے نکل بھاگے۔‘‘
وہ مسکراتے ہوئے بولا۔’’اپنی سنائو،دھندا کیسا ہے؟‘‘
’’ایمان سے سمجھ نہیں آتا۔ ایک دَم فس کلاس چل رہا ہے۔ ایسا کبھی نہیں تھا۔‘‘ اس نے آنکھ مارتے ہوئے کہا۔
’’واقعی،وہ اپنی طرف متوجہ راہگیروں کی نظروں سے بے چین ہوگیا۔
’’چل تجھے چائے پلائوں۔‘‘ اس نے اسے کہنی مارتے ہوئے کہا۔
’’پھر کبھی۔ریما!‘‘وہ کنی کترا گیا۔
ریلوے اسٹیشن کے مرکزی دروازے پر چالیس واٹ کا بلب روشن تھا۔ اس کے نیچے کالے حرفوں میں قصبے کا نام لکھا تھا۔ نیم تاریکی میں چمگادڑوں کے پرَوں کی سرسراہٹ سُنائی دے رہی تھی۔ کوئی کتّا کرچ کرچ ہڈی چبارہا تھا۔
ایک چمگادڑاس کے نزدیک سے گزری تو اس نے سَر جھکالیا۔
پلیٹ فارم پر خربوزے کی بوریاں اورآموں کی پیٹیاں بکھری ہوئی تھیں۔ ہَوا میں خربوزے اور آموں کی خوشبو گھلی ہوئی تھی۔ ریلوے اسٹیشن کا عملہ زمینداروں کے ساتھ مل کر بوریوں پر نمبرلگا رہا تھا۔ ٹی اسٹال بندتھا۔
وہ سیڑھیاں پھلانگ کر دوسرے پلیٹ فارم پر چلا گیا۔پھر دھیرے دھیرے چلتا میدان تک پہنچا۔
میدان اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ ذرا فاصلے پر مکانوں کی زرد روشنیاں نظر آرہی تھیں۔ وہ پلیٹ فارم کے کونے پر کھڑا ہوگیا۔
اس کے سامنے وہ جگہ تھی جہاں تیز روشنیوں کے دائرے کے درمیان رقص ہوتا رہا تھا۔ لٹکے ہوئے لوگوں کے آدھے جسم دائرے پر جھکے ہوئے تھے۔ ہر کوئی دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتا تھا۔ اچھالے جانے والے پتّے فضا میں گھومتے جھامتے نیچے گررہے تھے۔ پتّوں کو زمین سے اٹھانے والی رقّاصہ ممنون نظروں سے اوپر دیکھنے لگتی تھی۔
’’چھولے چھولے، آکے مجھے چھولے۔‘‘چھونا مشکل تھا کہ دائرے کی بلندی سے چھلانگ مارنا دل فریب موت سے ملاقات کے مترادف تھا۔
دوجوان لڑکیاں، ان کے تھرکتے، مچلتے ہوئے جسم اُن کی آنکھوں کے اشارے، ان کے ہونٹوں پر کھیلتی مسکراہٹیں اور کچھ بھرے بھرے جسموں والی عورتیں۔کسے ہوئے لباس میں بلندی سے ان کے سینوں کی گولائیاں نظر آتی تھیں۔ دھک دھک کرتی چھاتیاں اور نیم برہنہ بازو۔
نشاط وغم کے بیچ اس نے سرد آہ بھرتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا تھا۔ ایک کونے پر زدر چاند اداسی میں اپنا چہرہ مسل رہا تھا۔وہ کچھ دیر کے لیے دائرے کا پرُ فریب منظر بھول گیا تھا۔ چاند کی ویران گولائی نے اسے غم زدہ کردیا تھا۔
اس نے چاند سے خالی اندھے آسمان کو دیکھا تو لمبا سانس بھرکے رہ گیا۔
اس نے ریلوے پھاٹک کے نزدیک رنگین روشنیوں میں ڈوبے مکان کی طرف دیکھا۔ اس طرف جانے کی خواہش کے باوجود وہ مخالف سمت میں چل پڑا۔
وہ مال گودام سے نیچے اترا اور زرد روشنیوں والے کچّے مکانوں کے بیچ گھومنے لگا۔
گلیوں میں چارپائیاں بچھی تھیں۔ کچھ لوگ سو گئے تھے اور کچھ سونے کی تیاری میں تھے، چار پائیوں کے ساتھ مویشی بندھے تھے۔ ان کے گوبر کی بُو ہر طرف پھیلی تھی۔
ایک جیسی دیواروں اور دروازوں کے بیچ اسے وہ مکان نہیں مل سکا۔
وہ پھاٹک عبور کرکے ایک ہوٹل میں جابیٹھا۔ سڑک پر خالی بینچیں پڑی ہوئی تھیں۔
ہوٹل والا جمائیاں لیتا آیا اور پانی کا جگ اور گلاس رکھ کے چلا گیا۔
وہ ہوٹل والے کو دیکھتا رہا جو چولہے میں لکڑیاں جھونک کر آگ جلانے کی کوشش کررہا تھا۔
شام ڈھلتے ہی قصبے کے جوان لڑکے ٹولیوں کی صورت میں یہاں پہنچتے تھے۔ اس ہوٹل کی دودھ پتّی بہت بڑھیاتھی۔وہ آپس میں سرگوشیاں کرتے، تالیاں بجاتے، ایک دوسرے پر پھبتیاں کستے، قہقہے لگاتے اور ٹھنڈی آہیں بھرتے تھے۔ہوٹل والا بینچوں کے درمیان اِدھر سے اُدھر دوڑتا پھرتا تھا۔
نوشی سے پہلی ملاقات کے بعد وہ بھی رات گئے تک یہاں ہنستا مسکراتا رہا تھا۔ ایک سرمست بے چینی اس کی نس نس میں سمائی تھی۔ اس نے چیختے ہوئے ہوٹل والے کو آرڈر دیا تھا کہ سارے لڑکوں کو دودھ پتّی چائے پلائی جائے۔لڑکوں نے تالیاں اور سیٹیاں بجا کر اس کے آرڈر کا خیر مقدم کیا تھا۔
’’میں وہ مکان کیوں نہ ڈھونڈسکا۔‘‘ وہ بینچ پر لیٹ گیا۔’’شاید اسے توڑ دیا گیا ہو یا وہ کسی بارش کی جھڑی میں بہہ گیا ہو۔‘‘ وہ کربناک حیرت کے زیرِ اثر اٹھ بیٹھا۔’’میں کیوں اسے یاد کررہا ہوں؟‘‘ میں نے تو اسے بھلا دیا تھا۔مجھے اس سے کیا تعلّق؟‘‘وہ اذیّت میں مسکرایا، پھر ہنسنے لگا۔’’یہ ٹھیک ہے لیکن میں وہ کربناکی نہیں بھول سکا۔نوشی کے جھوٹ نے جو میرے احساس میں گھول دی تھی۔ اس نے شاید میرے ساتھ ہولناک مذاق کیا تھا۔ مگر نہیں۔ اس نے تو صاف لفظوں میں مجھے حقیقت ِ حال بتا دی تھی۔ میں اسے قبول نہیں کرسکا اور اس کے بعد اس کا ہر لمَس میرے جسم کے اندر زہر گھولنے لگا۔‘‘
ہوٹل والا منہ بسورتا اسے چائے کی پیالی تھما کر مڑنے لگا تو اس نے دس روپے کا نوٹ جیب سے نکالتے ہوئے کہا۔’’رنگیلے، مانڈلی سے سگریٹ تو لادو۔‘‘
رنگیلا سر ہلاتا چلا گیا۔
اس روز وہ نوشی سے ہم بستری کے بعد قمیض پہن رہا تھا، تو اس نے بریزرچڑھاتے ہوئے نرم لہجے میں وہ کڑوی بات کہہ دی تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ اس کا باپ زیادہ تنگ کرنے لگا ہے۔ اس سے کچھ ہوتا تو ہے نہیں پہلے انگلیوں سے کام چلاتا تھا مگر اب …شرم کی وجہ سے اس نے وہ جملہ ادَھورا چھوڑ دیا تھا اور الماری سے ایک پنسل نکال کر اسے تھما دی تھی۔
اس نے کراہٹن سے خون آلود پنسل کو زمین پر دے مارا تھا۔ وہ نوشی کے بھرپور جسم کو دیکھتے ہوئے دانت چلچانے لگا تھا۔
نوشی کے گھر سے نکل کر وہ رات بھر قصبے کی گلیوں میں آوارہ پھرتا رہا تھا۔ عظمت نیازی سے اس کی مڈبھیڑہوگئی تھی۔ وہ اسے زبردستی اپنے کوٹھے پر لے گیا تھا۔ وہاں اس نے چرس کے بہت سگریٹ پئے تھے اور فرمائش پر عظمت نیازی سے غمگین فلمی گانے سنتا رہا تھا۔ گلوکار نے بہت اصرار کیا تھا کہ وہ رات اس کے کوٹھے پر گزار دے۔ مگر اس کے دماغ میں دوسری ہَوا سمائی ہوئی تھی۔ وہ کوٹھے سے اتر کر گھر نہیں گیا تھا۔ رنگیلے کے اسی ہوٹل پہ آگرا تھا۔اس کی آنکھوں سے آنسو نہیں بہے تھے مگر اس کے اندر کوئی چیز پھٹتی بکھرتی رہی تھی۔اس نے یہیں کسی کونے میں الٹیاں کی تھیں اور صبح تک بینچ پر لیٹا رہا تھا۔
اسے پتا چل گیا۔آج نوشی کیوں کر یاد آرہی تھی، وہ حیران تھا۔ اس کے جسم کی خوشبو میں بسے لمحے چپ چاپ گم ہوتے چلے گئے۔ اب ان کے خیال میں اذیّت کے سوا کچھ بھی نہیں رہا۔
اس نے لمبا عرصہ زہرناک خود فراموشی میں گزار دیا۔ مگر نوشی کے گداز جسم کو فراموش نہیں کرسکا۔ اس نے ہمیشہ اپنے تخیئل میں ڈھانچہ نما کھردرے ہاتھوں کو اس کا جسم رگیدتے ہوئے دیکھا۔ بازوئوں کی نوکیلی ہڈیوں کے بیچ اسے تڑپتے ہوئے محسوس کیا اور کوڑھ زدہ، بلغم سے اٹے ہونٹوں کو اس کے سینے پر رینگتے دیکھا۔
وہ ان خیالوں کی وحشی ہولناکیوں سے گریز کرنا چاہتا تھا۔ اسی لیے اس کے وصال کے لمحوں کی بوباس ڈھونڈ رہا تھا۔


رات زیادہ نہیں ڈھلی تھی لیکن سڑک سنسان ہوگئی تھی۔ وہ سگریٹ پھونکتا، روشنی اور اندھیرے کے دائروں میں چل رہا تھا۔ ناکہ چنگی کے دفتر کے باہر میز پر سرجھکائے، اونگھتے ہوئے کلرک نے ہاتھ ہلا کر اسے سلام کیا۔ شام کے بعد کوئی مال، قصبے سے باہر نہیں بھیجا جاتا تھا۔ کوئی اکا دکا گاڑی قصبے کی طرف آتی تھی۔ البتہ پوپھٹے سے ذرا پہلے قرب وجوار کے کسان سبزی اور پھل اٹھائے پہنچ جاتے تھے۔
’’بے چارے کلرک کو سات بجے تک بیٹھنا ہے۔‘‘ اس نے کش لگایا۔
آرامشین کے باہر درختوں کے تَنے اور چھوٹی موٹی لکڑیاں بکھری ہوئی تھیں۔ مشین بند تھی۔ ملازم کھاٹ پر سو رہا تھا۔ قصبے کے آس پاس کھیتوں اور نہروں سے درخت کٹتے چلے گئے تھے۔ اسے یاد آیا۔بڑی نہر کے کنارے شیشم کے جس پیڑ کی اونچی شاخوں سے وہ نہرمیں چھلانگ مارتا تھا، وہ بھی کاٹ لیا گیا تھا۔ اب وہاں اکا دکا کیکر کے سوکھے سڑے درخت بچے تھے۔
وہ برسوں کی دیکھی بھالی چیزوں کو خوامخواہ غور سے دیکھتا جارہا تھا۔ سگریٹ ختم ہونے لگا تو اس نے ٹوچن کرکے نیا سگریٹ سُلگالیا۔
کسی دوکان سے اٹھتی ناگوار بوُ نے اس کے قدم روک لیے۔ وہ نتھنے پھڑکاتے ہوئے دوکان ڈھونڈنے لگا۔یہ فارمی مرغیوں کی فیڈ کی دوکان تھی۔ وہ جانتا تھا کہ مردہ جانوروں کی ہڈیوں اور گوشت کو کیمیکلز کے ساتھ ملا کر فیڈ بنائی جاتی تھی۔ وہ کئی بار ایک دوست کے پولٹری فارم جاچکا تھا۔ اس نے چوزوں کو یہ فیڈ شوق سے کھاتے ہوئے دیکھا تھا۔
اس نے ناک کوبدبو سے صاف کرنے کے لیے سگریٹ کے لمبے کش لگائے اور نتھنوں سے دھواں نکالا۔
وہ پرائمری اسکول کے نزدیک رک گیا۔ سرخ اینٹوں کی مختصر دیوار سے پرے اسکول کی زرد رنگ عمارت کھڑی تھی۔
اسے وہ لنگڑا استاد یا آیا جس نے اسکول میں پہلے دن ہی اس پر کسی وجہ کے بغیر تھپڑوں کی بوچھاڑ کردی تھی۔ وہ تمام دن روتا رہا تھا۔ کسی ہم جماعت نے دلاسہ بھی نہیں دیا تھا۔۔پیشاب سے اس کی شلوار بھیگ گئی تھی۔
وہ مسکرایا اور چل پڑا۔
حیدری چوک پر تھوڑی سی چہل پہل تھی۔ ایک ہوٹل کھلا ہوا تھا۔کچھ لوگوں میں بحثا بحثی ہورہی تھی۔
’’لڑکے منہ کالا کرکے لوٹ آئیں گے، دیکھنا۔‘‘
’’مگر قصبہ ویران ہوگیا۔ نکلا ہوا مال واپس نہیں آتا۔‘‘
’’ہماری لڑکیوں کا کیا بنے گا؟‘‘
’’غلطی ہماری ہے۔امام مسجد کی پیشن گوئی نہیں مانی۔‘‘
ہر کوئی اپنی ہانک رہاتھا۔وہ ٹھیلے سے پکوڑے خرید کر کھانے لگا،اس کا پیٹ خالی تھا، اس لیے باسی پکوڑے بھی لذیذ معلوم ہوئے۔ وہ مانڈلی سے دوپان خرید کر گلوکار کی طرف چل پڑا۔
گلی میں باجے کی آواز سن کر وہ حیران رہ گیا۔ وہ سیڑھیاں چڑھ کے اوپر پہنچا تو عظمت نیازی موٹی اور اداس آواز میں سرائیکی گانا گارہا تھا۔’’اٹھاں والے ٹرجان گے۔‘‘
وہ اسے دیکھ کر مسکرایا اور ہارمونیم چھوڑکے مصافحے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔
’’ہارمونیم کہاں سے اٹھا لائے۔‘‘وہ بیٹھتے ہوئے بولا۔
’’سرکارمیرے اندر کا فنکار ابھی زندہ ہے۔ دودن ریاض نہیں کیا۔ زندگی ویران ہوگئی۔ بیوی کے ساتھ سویا تو اسے چھونے کو دل نہیں چاہا۔ انگلیوں میں کھجلی ہوتی رہی۔ کوئی چیز گلے سے نیچے نہیں اتری۔ سوائے دھوئیں کے۔بس آج ہی ایک دوست سے ادھار مانگ لایا۔‘‘ وہ پان منہ میں دبا کر گانے لگا۔
وہ کچھ دیر تکیے سے پیٹھ لگائے بیٹھا رہا۔ اس نے جماہی لے کر دری پر ہاتھ مارا تو گرد اُڑنے لگی۔
وہ کھڑکی کی سلاخوں کے پیچھے بکھری ہوئی رات کو دیکھتا رہا۔
گانا ختم کرکے گلوکار نے داد کے لیے اس کی طرف دیکھا تو وہ دیوار پر تصویریں دیکھ رہا تھا۔
وہ ہاتھ میں تکیہ اُٹھا کر تصویروں کے پاس جا بیٹھا۔
عظمت نیازی اپنے سگریٹ ٹٹول رہا تھا کہ اس نے پیکٹ آگے بڑھا دیا۔
’’میں سمجھا تھا کہ تم نکل گئے ہو گے۔ مگر تم بھی میری طرح ڈھیٹ ہو۔ سچ پوچھو۔مجھے توپچھتاوا ہو رہا ہے۔ اب یہاں پہلے سا مزہ نہیں رہا۔ تم بھی اتفاقاً ادھر آنکلتے ہو، ورنہ اب کون آئے گا۔‘‘ وہ تمباکو میں چرس ملانے لگا۔
وہ تصویروں سے اپنی انگلیاں ہٹا کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔’’وہ کہاں تک پہنچے ہوں گے؟‘‘
عظمت نیازی ہنسا۔’’میں نہیں جانتا مگر کہیں نہ کہیں تم انہیں پالوگے۔‘‘اس نے تیار شدہ سگریٹ اسے تھمایا اور اپنے ہاتھ جھاڑنے لگا۔
سیڑھیاں اتر کر وہ گھر کی جانب چل پڑا۔ خاموش گلیوں میں وہ اپنے سانسوں کی آواز اور قدموں کی چاپ سنتا رہا۔گھر میں نماز پرمچنے والا غوغا اس کے ذہن میں درآیا۔ پھرنوشی کی یاد گھس آئی اور اس نے ایک ہانپتے کانپتے بوڑھے کو دیکھا۔ اس کے اندر ٹیسیں اٹھنے لگیں۔
تاریک مکان سکون میں ڈوبا تھا۔ کنڈی کی کھٹکھٹاہٹ زور سے گونجی۔
دروازے کے پیچھے نسوانی آواز سنائی دی۔’’کون؟‘‘
’’میں…‘‘اس نے آہستگی سے بتایا۔
وہ چپ چاپ سرجھکائے سیڑھیوں کی طرف جانے لگا۔
’’آپ نے کھانا تو نہیں کھایا ہوگا؟‘‘بہن نے پوچھا۔
’’نہیں۔ مگر پیاس بہت لگ رہی ہے۔‘‘وہ ڈگمگاتے قدموں سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
وہ کھاٹ پر بیٹھا تو جسم جلتا محسوس ہوا۔ وہ سینے پر ہاتھ پھیرنے لگا۔
صحن میں چھوٹے بھائی بہن بے سدھ سورہے تھے۔ وہ لیٹ گیا۔ اس نے سامنے بالکنی پر ایک سائے کو دیکھا۔اس نے آنکھیں میچ لیں۔
بہن کھانا اور پانی لے کر آئی تو اس نے جگ منہ سے لگالیا۔ ہاتھ دھوئے بغیر اس نے نوالہ توڑا اور منہ میں ڈال کر چبانے لگا۔
بہن پائینتی بیٹھ کر اسے دیکھتی رہی۔اس نے بالکل نیا جوڑا پہن رکھا تھا اور اس کے جسم سے خوشبو اُٹھ رہی تھی۔
وہ قمیض کا دامن درست کرتی مخاطب ہوئی۔’’ابّا تو ایسے ہی ہیں۔ تنک مزاج اور غصیلے،امّاں نے بھی کبھی اونچے لہجے میں بات نہیں کی۔ ہمارا بچپن ان کے خوف میں گزرا لیکن ایک مہینے سے تو وہ آپ کے ویری ہوگئے۔ پتا نہیں کیوں؟یہ نہیں سوچتے، جوان بیٹا ہے، گھر چھوڑ کے جاسکتا ہے اور یہ بات عام ہوگئی ہے۔‘‘
نوالے چباتے ہوئے اس کے جبڑے دکھنے لگے،سالن میں مرچیں بھی زیادہ تھیں۔
’’پانی۔‘‘اس نے بمشکل کہا۔
کسی نے ہونٹوں سے سیٹی بجائی۔ سیٹی کی آواز سن کر اس کی بہن کسمسائی۔ اس نے بے چین ہوکر بالکونی کی طرف دیکھا۔ وہ سایہ اچھل کر ہاتھ ہلا رہا تھا۔
کچھ دیر بعد اس کی بہن کہنے لگی۔’’آپ کیوں گم صم رہتے ہیں؟ابّا کے بعد گھر کے بڑے آپ ہیں۔ انہیں سمجھا سکتے ہیں۔‘‘
وہ مسکراتے ہوئے بولا۔’’انہیں کوئی نہیں سمجھاسکتا۔‘‘
’’وہ کسی کی سنتے بھی تو نہیں۔‘‘
اسے یاد آیا کہ پیکٹ میں ایک سگریٹ باقی تھا مگر اس نے کبھی بہن کے سامنے سگریٹ نہیں پیا تھا۔ اسے احساس ہوا کہ دوسرے لوگوں سے زیادہ یہ بہن اس کے لیے پریشان رہتی تھی۔ وہ بہن کی ہمدردی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا مگر کچھ بھی نہ کہہ سکا۔
وہ جا چکی تو اس نے تنہائی میں آہ بھری اور سگریٹ سلگا کر کش لیا۔
رات کے آسمان پر کوئی ستارہ نہیں تھا کہ ٹوٹ کے گرتا۔ کوئی چاند نہیں تھا کہ چمکتا، گہری تاریکی تھی اور اس میں چھپی اجنبی شکلیں۔ چاروں طرف خاموشی تھی۔
وہ سوچ رہا تھا کہ میں چلا کیوں نہیں جاتا۔ کیا باقی بچا ہے۔ کھانستا ہوا سنکی باپ، ہر وقت فکروں میں الجھی ماں اور سہمے ہوئے بھائی بہن۔ مجھے ان سے کیا تعلّق؟ کتنے برس ان کے ساتھ گزار دیے۔ میں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔
ریلوے اسٹیشن سے گزرتی گاڑی کا تیز ہارن اور پہیوں کی گڑگڑاہٹ فضا میں گونجی۔


متروک لائن کے ساتھ چلتا وہ دور نکل آیا۔زمین کی حدِت کم ہوگئی۔ دونوں طرف سبزہ تھا، شاید اس لیے سیم وتھور کی ماری بھربھری زمین پیچھے رہ گئی تھی۔
آندھی اوپر ٹھہر گئی۔نیچے نہیں اتری۔سب کچھ گدلایاہوا تھا۔ زمین، فضا اور کھیت، لُوسَن اور مٹّی کی خوشبو میں سانس لیتے ہوئے وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کررہا تھا۔ انگلی سے بھنوئوںکا پسینہ گراتے ہوئے اس نے دائیں جانب دیکھا۔عورتیں چارے کی گٹھڑیاں سروں پر اٹھائے جارہی تھیں۔ ان کی چھاتیاں بے باکی سے تھرک رہی تھیں۔ اس نے اِدھر اُدھر نگاہ کی۔ اس کے سوا اور کوئی نہ تھا۔ وہ غور سے انہیں دیکھنے لگا۔ ایک جوان عورت بھی تھی۔ وہ لباس میں تو دوسروں جیسی تھی مگر اس کے قدموں کی سبک روی اور اوپر کی طرف اس کے سینے کی حرکت، اس کی جوانی کا پتا دیتی تھی۔ فاصلے کے سبب وہ کسی کا چہرہ نہیں دیکھ سکا۔ کچھ ہی دیر میں وہ قطار پھیکے رنگوں کی لکیر میں تبدیل ہوگئی۔
اسے ایک دوست کی کہانی یاد آگئی۔ وہ اپنے کھیتوں پر گنے کی فصل کے بیچ گھوم رہا تھا۔ اس نے ایک عورت کو فصل میں گھستے دیکھا۔ اس کے پیچھے وہ بھی گھس گیا اور اس نے عورت کو جا دبوچا۔
وہ ٹھہر گیا۔ اس کے پائوں مٹّی سے اٹ گئے تھے۔ اس کی قمیص پسینے سے بدن پر چپکی ہوئی تھی، اس نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری، دورسبزے میں پھیکے رنگوں کی لکیر گم ہوگئی تھی۔
وہ قصبے کی طرف لوٹ آیا۔ اس نے پھاٹک کے ساتھ والے کیبن کے مٹکے سے پانی پیا اور اپنا منہ دھویا۔
گھر کی دیواروں کی حدت کا سوچ کر وہ کیکر والے مکان کے باہر لگی بھیڑ میں گھس گیا۔ آج اس بھدی عورت کے بجائے دو پہلوان لوگوں کو قطار بنانے کی ہدایت کررہے تھے۔ وہ قطار میں سب سے آخری تھا۔ اس نے دھاندلی کی کوشش نہیں کی۔
شام ڈھلنے پر لوگ اونچے لہجوں میں باتیں کرنے لگے اور قہقہے لگانے لگے۔
اس کے پیچھے قطار بہت لمبی ہوگئی تھی۔
وہ بڑ بڑاتا قطار سے علیحدہ ہوکر میدان کی طرف چل دیا۔
وہ میدان میں دائرے والی جگہ ڈھونڈنے لگا۔ وہ تھوڑی دور چل کے ٹھہر جاتا۔ہر جگہ پر اسے گمان گزرتا کہ دائرہ یہیں پر تھالیکن کہیں سے بھی گیت کی دھن اور گھنگھروئوں کی جھنکار نہ سُنائی دیتی تھی۔ اس کے ذہن سے ناچتے جسموں اور تھرکتے اعضا کے نقش بھی دھند لانے لگے تھے۔ وہ میدان کے چپے چپے میں گھومتا پھرا لیکن دائرے والی جگہ نہ مل سکی۔
تھک ہار کے وہ پلیٹ فارم کی نشست پر جا بیٹھا۔
اسے گھر والا سانحہ یادآگیا۔ ماں کے بکھرے ہوئے بال، اس کے بین اوراس کی سینہ کوبی۔ وہ حیران تھا کہ اس نے کتنی پرُخلوص ہمدردی سے ماں کو دلاسے دیے اور سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ اسے اپنے بوڑھے باپ پر بھی رحم آیا تھا۔ گرچہ اس کے خیال میں سب کچھ اس کا کیا دھرا تھا۔ اس نے اپنے چھوٹے بھائیوں اور بہن کو بھی سینے سے لگالیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے بھاگ جانے سے زیادہ صدمہ بچّوں کو پہنچا تھا۔
’’اس نے اچھا کیا چلی گئی۔‘‘ اطلاع ملتے ہی اس نے اپنے آپ سے کہا تھا۔
پتھر یلی نشست پر پہلو بدلتے ہوئے اسے چھوٹے بھائیوں اور بہن کا خیال آگیا۔
وہ گھر کی طرف جاتے ہوئے سوچ رہا تھا۔’’میں بھی قصبہ چھوڑ جائوں گا، وہ زیادہ دور نہیں گئے ہوں گے۔


افسانہ نگار کی کہانی
میں نے اک روز والدہ سے پوچھا۔’’امی جی۔یہ بتائیں کہ میں رات کے وقت پیدا ہوا تھا یا دن کے وقت؟‘‘
وہ اس بے تکے سوال پر مسکرائیں،پھر تھوڑا سا شرمائیں اور سنبھل کر کہنے لگیں۔’’تم آدھی رات کو پیدا ہوئے تھے۔ مجھے خوب یاد ہے کہ وہ جاڑوں کا مہینہ تھا اور کمرے سے باہر پالاگررہا تھا۔ میں کھاٹ پر تڑپتی،درد ِزہ میں مبتلا تھی۔ دائی بخت بانو اور محلّے کی دوسری عورتیں میرے چوگرد منڈلارہی تھیں اوریہ،تمہارے ابو،انگیٹھی کو گرم رکھنے کی کوشش میں بار بار صحن میں پڑی ہوئی سوکھی لکڑیاں لارہے تھے۔ تمہارے پیدا ہونے کے بعد میں بہت دیر تک صبح کی روشنی پھیلنے کا انتظار کرتی رہی تھی۔‘‘بولتے بولتے ان کے گال تمتمانے لگے تھے اور انھوں نے دوپٹے کا پلّودانتوں میں دبا لیا تھا۔وہ مجھ سے نگاہیں چراتے ہوئے خاموش ہوگئیں کیوں کہ انھیں زیادہ بولنے کا احساس ہوگیا تھا۔
گارے مٹّی سے بنے ہوئے بوسیدہ کمرے،دن بھر جس کی چھت کی کڑیوں پر چمگادڑ آرام کرتے تھے۔ کمرے سے باہر پھیلے طویل اور کچے صحن۔شام کے بعد جس پر سانپ اور بچھو رینگتے پھرتے تھے اور اس صحن کے کونے پر اُگی ہوئی بیری،جس کی ٹہنیوں پر جنّات کا بسیرا تھا۔ اور اس بیری کے پاس لگے ہینڈ پمپ، جس کے نیچے بیٹھ کر بھوت غسل کرتے تھے، میرا ذہن تھوڑی دیر کے لیے اس مکان کے تصوّر میں کھو گیا،جہاں میرے سِوا میرے دو بھائیوں نے بھی جنم لیا تھا۔
کیا کسی آدمی کی پیدائش کی کوئی وقعت ہے بھی سہی؟جب کہ ہر دن ہماری دنیا میں بے شمار انسان جنم لیتے ہیں۔ ہر پیدائش ایک افسانہ ہوتی ہے۔ پر اسرار،حیران کن اور دلچسپ افسانہ۔ ہمارے ذہن میں ایسے کئی افسانوں کے اوراق آج بھی محفوظ ہیں۔جیسے کائنات کی پیدائش کا فسانہ، آدم اور حوا کی پیدائش کا فسانہ اور دوسرے اَن گنت افسانے، لیکن آج کی دنیا افسانے کا رومان غارت کرنے کے درپے ہے۔ اس کی کشش برباد کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔ اسی لیے اس نے پیدائش کو افسانہ بننے سے روکنے کے لیے میڑنٹی ہوم کھول لیے ہیں۔
تقسیم سے پہلے، جب سندھ کا خیرپورضلع ریاست ہوا کرتا تھا اور میروں کا خاندان یہاں حکومت کرتا تھا۔تو انھوں نے ریاست کے بنجر علاقے کو آباد کرنے کی خاطر پنجاب کے قصبوں اور دیہاتوں میں اپنے وفود بھیجے تھے تاکہ پہلی اور دوسری جنگ ِ عظیم میں حصّہ لینے والے فوجیوں کو زمین کی آبادکاری پر اُکسایا اس کے۔میروں کا ایک وفدڈھکے والی پہاڑی(یعنی سلسلۂ سون سکسیر کی آخری پہاڑیوں میں سے ایک ) سے پندرہ میل دور واقع ڈھرنال ڈیم کے علاقے میں بھی گیا۔ ڈھرنال ڈیم سے ڈیڑھ کوس کی دوری پر میرے دادوں، پڑدادوںاور نانوں، پڑنانوں کا آباد کیا ہوا گائوں سُکاّ واقع ہے۔ میرے دادا پہلی جنگ ِ عظیم میں شریک ہوچکے تھے، اس لیے وہ شوق سے میروں کا اعلان سننے کے لیے گئے تھے۔ انھوں نے خیرپور میں زمین حاصل کرنے اور گوٹھ بنانے کا فیصلہ کرنے میں دیر بالکل نہیں لگائی مگر پرکھوںکا بسایا ہوا علاقہ چھوڑنا آسان کام نہیں۔شاید میرے دادا کو خشک سالی کے عفریت سے چھٹکارا پانے کی اور کوئی ترکیب سجھائی نہیں دی تھی۔
میرے دادا کو اپنے کنبے، گھر کے سامان اور ڈھورڈنگر کے ساتھ نقل مکانی کرنی تھی۔ میری دادی نے مجھے بتایا تھا کہ تقریباً ایک مہینے تک چیزوں سے لدا پھندا دادا کاخچرنیم کے درخت سے بندھا رہا تھا۔وہ روز فجر کے ویلے اٹھتے، غسل کرکے نئے کپڑے پہنتے، میری دادی کو تیّاری کا حکم دیتے لیکن جب وہ نیم کے پاس آکر خچر کی رَسی کھولتے تو ان کی آنکھیں ڈبڈبانے لگتیں۔ وہ خچر کی رَسی دوبارہ باندھ دیتے اور وطن چھوڑنے کا ارادہ آنے والے دن تک ٹال دیتے۔ انھیں معلوم تھا کہ وطن چھوڑنے کا مطلب ہے، اپنی جڑوں سے ہمیشہ کے لیے کٹ جانا۔ مجھے یاد ہے کہ خیرپور ضلعے کی تحصیل کوٹ ڈیجی کے مختصر ریگستانی علاقے میں واقع اپنی جاگیر پر زندگی کے آخری دن گزارتے ہوئے میرے دادا ماہیے گنگناتے ہوئے اپنے وطن کو یاد کرتے رہتے تھے۔شاید ہجرت ان کا مقدر تھی، لیکن ایک ہجرت کے بعد ان کے خاندان کو پے درپے کئی ہجرتوں سے گزرنا پڑا اور یہ سلسلہ ایک مختلف صورت میں آج بھی جاری ہے۔
میرے دادا نے میرے والد کو سکا میں چھوڑ دیا تھا، کیوں کہ وہ چکڑالہ ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کررہے تھے، جو سُکّا سے بارہ میل دور واقع ہے۔ میرے والد ہر ہفتے چھٹی گزارنے گائوں آتے تھے، کبھی پیدل،اور کبھی اپنے پھوپھی زاد کی گھوڑی پر سوار ہو کر۔ ان کا پھوپھی زاد انھیں گھوڑی کے پچھلے حصّے پر بٹھاتا تھا، وہ جہاں سے پھسل کر اکثر نیچے گر جاتے تھے۔ میڑک کے بعد دادا نے اپنے بیٹے کو سندھ بلوالیاتھا، جب کہ وہ مزید پڑھنے کا خواہش مند تھا۔ میرے والد کو سندھ میں زراعت کے محکمے میں نوکری مل گئی۔انھیں روز گار ملتے ہی میری دادی نے اپنے بھائی کی بیٹی سے ان کی شادی کردی۔ خیر پور کی دو تحصیلوں، ٹھری میرواہ اور کوٹ ڈیجی کے مختلف گوٹھوں میں کچھ سال گزارنے کے بعد میرے والد نے اپنے خاندان سے الگ ہوکر محراب پور میں سکونت اختیار کرلی جو اس وقت ضلع نواب شاہ میں شامل تھا۔
میں نے لکھنے سے پہلے سننا سیکھا تھا اور اس کے بعد پڑھنا۔ میری امی کی طرح میری دادی بھی سیدھی سادی گائوں کی عورت تھیں۔ انھوں نے نہ توالف لیلہ پڑھی ہوئی تھی اور نہ ہی وہ کتھا سرت ساگر سے واقف تھیں۔ ان کے لیے ان کی اپنی زندگی الف لیلہ سے کم نہیں تھی۔ میری دادی دودھ کی بجی کھچی ملائی سے مکھن بناتی تھیں اور مکھن میں آٹا ڈال کر اس سے دیسی گھی نکالتی تھیں۔ دیسی گھی فروخت کرکے انھوں نے بہت سی زمین خرید ی تھی، جو میرے دادا نے دوست دار دشمنوں میں تقسیم کردی تھی۔ جب کبھی ہم بہن بھائیوں نے دادی سے کہانی سننے کی فرمائش کی، تو انھوں نے سادگی سے اپنی زندگی کا کوئی تجربہ یا واقعہ سنا دیا، جو ہمارے لیے کہانی جیسی لذت رکھتا تھا۔
محراب پور والے گھر میں محلّے کی عورتوں کی آمدورفت رہتی تھی۔ کبھی وہ تندور کے گرد جھم گھٹا لگاتی تھیں اور کبھی چولہے کے گرد چوکیوں پر بیٹھی رہتی تھیں۔ جب روز مرہ زندگی کی پٹاری کھلتی، تو مزیدار کہانیوں کا سلسلہ چل نکلتا تھا۔ میں چپکے چپکے ان رچی بسی عورتوں کے جھم گھٹ میں گھسا رہتا تھا لیکن اکثر اوقات مجھے ڈپٹ کر بھگا دیا جاتا تھا۔
میرے گھر میں صرف میری باجی کو کہانیاں پڑھنے کا شوق تھا۔ وہ امی ابو سے چھپ کر اور سہیلیوں سے مانگ تانگ کر رومانی افسانے پڑھتی تھیں۔ میں نے چوں کے اسکول جانے سے بیشتر باجی کے ساتھ ان کے اسکول جانا شروع کردیا تھا، اس لیے وہ کہانیاں صرف مجھی کو سناتی تھیں۔ کیوں کہ میں فرمانبردار چھوٹا بھائی تھا۔ کچھ برسوں کے بعد انھیں مطالعے کی اجازت تو مل گئی لیکن وہ عشقیہ داستانوں کی فضا سے باہر نہیں نکل سکیں۔
میں نے دو آنے چار آنے والی کہانیوں سے پڑھنا شروع کیا تھا، جو طلسم ہوشربا کے گھٹیاچربے کے سوا کچھ نہیں تھیں مگر ان کے مطالعے سے تخئیل کو تو فائدہ پہنچا۔ تھوڑے ہی برسوں کے بعدجادوبھری کہانیوں کی فضا سے نکل کرجاسوسی کہانیوں کی گپھامیںداخل ہوگیا۔ مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر میں نے ایک سیکرٹ سروس بنائی تھی اور ہم لوگ غیرحقیقی مجرموں کا تعاقب کرتے پھرتے تھے۔ میں نے راتوں کو چھپ چھپ کر اور لحاف میں گھس گھس کر ناقص روشنی کے باوجود کئی ضخیم جاسوسی ناول چاٹ ڈالے تھے۔ اسی لیے ساتویں جماعت میں نظر کی کمزوری کا چشمہ لگ گیا تھا۔ میری امی چونکہ پڑھی لکھی نہیں ہیں، اس لیے میں انھیں جُل دے جایا کرتا تھا۔ میرے ابو مطالعے کو نصابی کتب تک محدود رکھنا چاہتے تھے۔ ان کے خیال میں قصّہ کہانیوں کا مطالعہ تضیع اوقات کے سوا کچھ نہیں تھا۔
جب میں نویں جماعت میں پڑھتا تھا، تب میں نے عشق کے طلسماتی دروازے پر پہلی دستک دی تھی۔ دروازہ کھلا، تو اندر سے بے شمار عجیب و غریب رنگ، خوشبوئیں اور ذائقے برآمد ہوئے۔ میں تھوڑے عرصے کے لیے ان کے سحر میں ڈوب گیا۔ طلسم ٹوٹا تو میرے سامنے مکمّل طور پر اجنبی اور حیران کن دنیا تھی۔ میں اپنے مقررہ وقت سے پہلے حقیقی دنیا کے روبروآگیا تھا۔ مجھ میں تاب نہیں تھی کہ تضاد، منافقت، سازش، نفرت اور کدورت سے بھری دنیا کے آگے ٹھہرپاتا۔شاعری کو میرے حال پر رحم آگیا اور وہ میری انگلی پکڑ کر ایسی دنیا میں لے گئی جو موسیقی سے بھری ہوئی نازک لفظوں سے آراستہ،مسحورکن اور خوب صورت تھی۔شاعری کی پہلی کتاب، میں نے جس کا مطالعہ کیا تھا،منیر نیازی کی ساعت ِ سیار تھی۔
میرے جذبات اور محسوسات کی گپھا گہری اور گمبھیر ہوگئی تھی، میرے ناتواں دل اور دماغ کے لیے جس کا بوجھ سہارنا مشکل ہوتا جارہا تھا۔ چند بے وزن غزلوں کی تخلیق نے پرُسکون کرنے میں مدد دی اور تھوڑے عرصے تک میرے توازن کو بحال رکھا۔ سوچتا ہوں، تو اب یقین نہیں آتا کہ میرے اسکول کے اسکائوٹ ماسٹر نے میری ایک غزل کی دُھن ہارمونیم پر بنائی تھی اور اپنے ایک شاگرد سے گوائی بھی تھی۔ میری طرح وہ استاد بھی عروض کی الف ب نہیں جانتا تھا۔ میرے بڑے بھائی کے ایک دوست نے اس زمانے میں میری شاعری کی حوصلہ افزائی کی تھی وہ آج تک وزن اور بحر کے چکر کو نہیں سمجھ سکے۔ میں کچھ عرصے تک ان کی سرپرستی میں بحرِرمل میں غزلیں لکھتا رہا لیکن میرے اشعار خودبخود جاجاکر بحرِرجز میں گرتے رہے۔ اس پر بھی یاروں نے واہ واہ میں کمی نہیں آنے دی۔ اس دوران میں نے میڑک پاس کرکے کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔
ایک شام ایک چائے خانے میں چند کمیونسٹوں سے ملاقات ہوگئی۔ میں اس سے پہلے کسی ازم وزم کو نہیں جانتا تھا۔ وہ عروسی ملبوسات کی دوکان پر کام کرنے والے سیلز مین تھے، جنھیں کسی نے مارکس ازم کی پٹی پڑھادی تھی اور یوں انھیں ایک برتر ذہنی سرگرمی میسر آگئی تھی، وہ جس کی مدد سے روز مرہ زندگی کا غم غلط کرتے تھے۔ مجھ ایسا کم علم ان کے ہاتھ کیا لگا، انھوں نے اپنا سارا علم میرے کانوں میں انڈیلنا شروع کردیا۔مارکس، اینگلز اور لینن کی کتابیں، مقدس سمجھ کر مجھے زبردستی پڑھوائی گئی تھیں جو دوستوں کی بقراطی گفتگو کی طرح میری سمجھ میں بالکل نہیں آئی تھیں۔ لیکن جب انھوں نے کرشن چندر اور میکسم گورکی کے ناول پڑھنے کے لیے دیے تومیں نے انھیں سمجھنے میں دیر نہیں لگائی۔ایک سوشلسٹ دوست کے اکسانے پر گورکی کے ناول ’’ماں‘‘ کی طرز پر ایک ناول لکھنا شروع کیا۔ جو خوش قسمتی سے پورا نہیں ہوسکا اور میں ترقی پسند ادیب بننے سے بال بال بچ گیا۔ میرے ان یاروں کے پاس کتابوں کا وافر ذخیرہ موجود تھا،میں نے وہ سارے کا سارا چاٹ ڈالا اور اسی لیے مجھے دوستوں کی مارکسیّت کا پتا چل گیا۔ جو کھیل وہ میرے ساتھ کھیلتے تھے، میں نے ان کے ساتھ کھیلنا شروع کردیا۔
میں نے اتفاقاً ریڈیو کے لیے ڈراما لکھا، جو براڈ کاسٹ ہوگیا۔ اس کے بعد مجھے خود بخود کہانی لکھنے کا خیال آیا اور میں نے زندگی کے ایک تجربے کو پہلی بار افسانے میں ڈھالنے کی کوشش کی۔کئی مرتبہ دوبارہ لکھنے کے بعد میں نے وہ کہانی ادبی پرچے کو ارسال کردی۔ وہ چھپ گئی۔ کہنے کو تو میں افسانہ نگار بن گیا لیکن بات اتنی سادہ نہیں تھی، جتنی کہ نظر آتی تھی۔
کہانی کی اشاعت کے بعد میں نے شاعری ترک کردی۔ کیوں کہ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ محبوبہ، غزل سے زیادہ شاطر اور مکار ہے، ایسے فریب میں مبتلا کرتی ہے کہ چاہنے والا وصل کی خواہش لیے رخصت ہوجاتا ہے اور اس کالمس تک حاصل نہیں کرپاتا۔مجھے نہ صرف کہانی کے لمس اور وصال کی آرزو تھی بلکہ میں اسے زیرِ دام لانا چاہتا تھا، گرچہ یہ بات آج بھی خواب وخیال معلوم ہوتی ہے۔ کیوں کہ بعد کے برسوں میں مجھے اتنا تو معلوم ہوگیا کہ کہانی لکھنے کے دوچار نہیں، بے شمار طریقے ہیں۔ پریم چند اور گورکی کی سماجی حقیقت نگاری ہو یا فلوبیئر کی مخصوص حقیقت نگاری، واقعیت بظاہر سادہ نظر آتی ہے لیکن ہزار ہا طرزوں میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ٹالسٹائی، ترگنیف، دوستوفسکی اور چیخوف منفرد حقیقت نگار تھے۔ ڈی ایچ لارنس نے واقعیت نگاری پر شدید حملے کیے مگر وہ خود اس جال سے نکل نہیں سکا۔ اسی لیے اس نے ہرمن میلولِ کے ’’موبی ڈِک‘‘کی بڑھ چڑھ کر تعریفیں کیں۔ کیوں کہ وہ سادہ علامت نگاری کا اوّلین شاہکارتھا۔ جیمز جوائس نے شعور کی روکے تمام امکانات کا احاطہ کیا۔ ورجینیا وولف نے ناول میں اسلوب اور رمزیت کی اہمیت پر بے حد اصرار کیا۔ کافکا اور سارتر نے تجرید کو فروغ دیا اور بالکل مختلف قسم کے فکشن کی طرح ڈالی۔ ایڈگرایلن پو اور صادق ہدایت نے سرئیلزم سے استفادہ کیا۔ اور نہایت پیچیدہ موضوعات پر فکشن تحریر کیا۔ مارکیز اور بورخیس نے جادوئی حقیقت نگاری کے درواکیے۔ غرض تمام فنکاروں نے اَن گنت طریقوں کو اظہار کے لیے ایجاد کیا۔
اپنی کہانی اپنے انداز میں لکھنا سہل کام نہیں۔رائج الوقت اسالیب، موضوعات اور رجحانات سے علیحدگی بلکہ کنارہ کشی لازم ٹھہرتی ہے۔ درحقیقت یہ دشوار ہے، مگر کوشش کا دروازہ تو کبھی بند نہیں ہوتا۔
میرے لیے کہانی کی دریافت آگ کی دریافت سے کم نہیں تھی اور میں نے خود کو اس آگ میں جھونکنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اس لیے نہیں کہ میں کندن بننا چاہتا تھا، بلکہ اس لیے کہ میں جل کر راکھ ہونا چاہتا تھا۔ کیوں کہ میرے اطراف میں بہت سی آگیں بھبھک رہی تھیں،جن میں چمک دمک تو زیادہ تھی لیکن حدت بالکل نہیں تھی۔ میں نے ان سے بچنے کے لیے کہانی کی آگ کا انتخاب کیا۔ اس آگ نے آہستگی سے مجھ پر اپنے بھید کھولے۔ اس نے میرے اندر کی بجھی دنیاکو روشن کیا اور میری ذات کی ٹمٹماتی لَوکو شعلے میں تبدیل کرکے رکھ دیا۔ وہ شعلہ اضطراب اور ہیجان کی صورت ہمہ وقت میرے اندر بھڑکتا رہتا ہے۔
جو لڑکا انٹرمیڈیٹ کے بعد اس بنا پر گریجویشن کرنے سے انکار کردے کہ اسے صرف افسانہ نگار بننا ہے اور دنیا بھر کے فکشن کا مطالعہ کرنا ہے اور کہانی کی طرف سے عائد ذمّہ داریوں کو نبھانا ہے اور ان چیزوں کے حصول کے لیے اسے درس گاہ جانے کی ضرورت نہیں۔ ایسے لڑکے کو پاگل اور خبطی قراردینے کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے۔ اور یہی کچھ میرے ساتھ پیش آیا۔
بے اطمینانی اور ناآسودگی کی مسموم فضا میں اگر کہانی میسر نہ آتی تو شاید میں زندہ نہ رہ پاتا۔ ظاہر ہے، خدا سے میرا ایمان اٹھ گیا تھا، الہامی کتب کے مطالعے سے طبیعت سیر ہوگئی تھی، ایسی صورت ِ حال میں محبت کچھ حوصلہ دے سکتی تھی لیکن اس جذبے کی نوحہ خوانی تو مدت پہلے متروک ہوچکی۔
اس واسطے میرے لیے کہانی صرف کہانی نہیں ہے بلکہ اپنے وجود کا اثبات، محرومیوں کا مداوا اورمکتی کا ذریعہ ہے۔شاید اور بھی بہت کچھ ہے۔ ایک دھرم، نہیں اس سے بھی زیادہ۔