آ گئے وہ مرے خیالوں میں
آ گئے وہ مرے خیالوں میں
گھنٹیاں بج اٹھیں شوالوں میں
رات کو چیر کر کرن ابھری
رات گھل مل گئی اجالوں میں
نگۂ شوخ تیری کیا اٹھی
بجلی کوندھی کمل کے تالوں میں
ایک لمحہ خوشی کا کیا کم ہے
زندگی کب ہے ماہ سالوں میں
دیکھ کر پل میں پھول گرتا ہوا
جھرجھری سی ہے حسن والوں میں
حاصل زیست ہے وہی لمحیں
جو کہ گزرے ترے خیالوں میں
جب کیا ذکر بے مثالوں کا
زندگی بس گئی مثالوں میں
مالداروں سے کیا ملے گا حبیبؔ
پائے گا کچھ پریشاں حالوں میں