ہم پست کیوں ہو گئے

کشمیریوں اورفلسطینیوں پر قیامت بیت رہی ہے اور یہاں ہماری محفلیں شگوفہ بنی ہوئی ہیں۔ یہ ہمیں کیا ہو گیا ہے؟ بستی میں ایسی بے حسی تو کبھی نہ تھی۔ درست کہ ہم آج کمزور ہیں اور ان کی عملی مدد سے قاصر ہیں۔ لیکن ہم اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ یہ دکھ امانت کی طرح سنبھال کر رکھیں اور نسلوں کو وراثت میں دے جائیں۔ کیا عجب ہماری نسلیں ہماری طرح بے بس نہ ہوں۔وقت کا موسم بدل بھی تو سکتا ہے۔ ہم اتنا تو کرسکتے ہیں کہ موسموں کے بدلنے تک اپنے زخموں کو تازہ رکھیں۔ ان سے رستے لہو کو جمنے نہ دیں۔ بھلے وقتوں کی بات ہے ابھی روشن خیالی کی مسند مسخروں کے ہاتھ میں نہیں آئی تھی۔ ہمارا ادیب دائیں اور بائیں کی تقسیم سے بے نیاز ہو کر یہ امانت نسلوں تک پہنچا رہا تھا۔
اقبال، قدرت اللہ شہاب، فیض،شورش کاشمیری، انتظار حسین، حبیب جالب، احمد ندیم قاسمی، ابن انشا، احمد فراز، رئیس امروہوی، ن م راشد، مستنصر حسین تارڑ، قر العین حیدر، مظہر الاسلام، ادا جعفری، یوسف ظفر، منظور عارف، ضمیر جعفری، خاطر غزنوی، محمود شام، نذیر قیصر، شورش ملک، سلطان رشک، طاہر حنفی، بلقیس محمود۔۔۔ کتنے ہی نام ہیں جنہوں نے اپنے افسانوں اور نظموں میں اس دکھ کو آئندہ نسلوں کیلئی امانت کے طور پر محفوظ کر دیا۔ یہ مگر گزرے دنوں کی بات ہے۔
اب فلسطین سے دھواں اٹھتا ہے تو ایک مستنصر حسین تارڑ کا قلم نوحے لکھتا ہے۔ باقی ادیب کیا ہوئے؟ قلم ٹوٹ گئے، سیاہی خشک ہوگئی یا احساس نے دم توڑ دیا؟ برسوں پہلے انتظار حسین کا افسانہ شرم الحرم پڑھا تھا۔ کچھ فقرے آج بھی دل میں ترازو ہیں۔ بیت المقدس میں کون ہے؟ بیت المقدس میں تو میں ہوں۔ سب ہیں۔ کوئی نہیں ہے۔ بچے کمہار کے بنائے پتلے کوزوں کی طرح توڑے گئے، کنواریاں کنویں میں گرتے ہوئے ڈول کی رسی کی مانند لرزتی ہیں۔ ان کی پوشاکیں لیر لیر ہیں۔ بال کھلے ہیں۔ انہیں تو آفتاب نے بھی کھلے سر نہیں دیکھا تھا۔ عرب کے بہادر بیٹے بلندو بالا کھجوروں کی مانند میدانوں میں پڑے ہیں۔ صحرا کی ہواوں نے ان پر بین کیے۔
انتظار حسین ہی کے افسانے کانے دجال کو میں نے کتنی ہی بار پڑھا۔ یہ پیراگراف ہر دفعہ خون رلاتا ہے۔ پلنگ پہ بیٹھی اماں جی چھالیاں کاٹتے رونے لگیں۔ انہوں نے سروتا تھالی میں رکھا اور آنچل سے آنسو پونچھنے لگیں۔ ابا جان کی آواز بھر آئی تھی مگر ضبط کر گئے۔ اپنے پروقار لہجے میں شروع ہو گئے: آنحضورﷺ دریاوں، پہاڑوں، صحراوں، سے گزرتے چلے گئے۔ مسجد اقصی میں جاکر قیام کیا۔ حضرت جبریل نے عرض کیا یا حضرت ؐتشریف لے چلیے، آپ ﷺنے پوچھا کہاں؟ بولے کہ یا حضرتؐ زمین کا سفر تمام ہوا۔ یہ منزل آخر تھی۔ اب عالم بالا کا سفر درپیش ہے۔ تب حضورﷺ بلند ہوئے اور بلند ہوتے چلے گئے۔۔۔۔۔ورفعنا لک ذِکرک۔۔۔۔۔۔۔

ابا جان کا سر جھک گیا۔ پھر انہوں نے ٹھنڈا سانس بھرا۔ بولے جہاں ہمارے حضورﷺ بلند ہوئے تھے، وہاں ہم پست ہو گئے۔