بھارت میں ذات پات کا رواج: ذات پات کا نظام کیا ہے اور کیسے وجود میں آیا؟

بھارت میں موجود ذات پات پر مبنی نظام دنیا بھر میں سماجی سطح پر طبقاتی تقسیم کی سب سے پرانی صورت ہے۔تین ہزار سے زائد عرصے سے رائج اس نظام کے تحت ہندوؤں کو ان کے کرما (کام) اور دھرما (فرض) کی بنیاد پر مختلف سماجی گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

ذات پات کا تصور کیے سامنے وجود میں آیا؟

تین ہزار سال پرانی کتاب مانوسمرتی میں، جسے ہندو قوانین کا سب سے اہم ماخذ سمجھا جاتا ہے، ذات پات کے نظام کو سوسائٹی میں تنظیم اور ترتیب کی بنیاد پر تسلیم کیا گیا اور اس کے حق میں دلائل دیئے گئے ہیں۔

ذات پات کا نظام ہندوؤں کو برہمن، شتری، ویش اور شودر کے نام سے چار کیٹیگریوں میں تقسیم کرتا ہے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ اس تقسیم کا ماخد تخلیق سے متعلقہ ہندو دیوتا براہما ہے۔

برہمن:اس طبقاتی تقسیم میں سب سے اوپر براہمن آتے ہیں جن کا کام تعلیم تربیت اور دماغی کاموں کی انجام دہی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ برہما کے سر سے وجود میں آئے ہیں۔

شتری:اس ے بعد شتریوں کا درجہ آتا ہے جو پیشہ کے لحاظ سے حکمران اور سپاہ گری سے متعلق ہیں اور وہ براہما کے بازوؤں سے وجود میں آئے ہیں۔

ویش:تیسرے نمبر پر ویش ہیں جو تجارت پیشہ ہیں اور براہما کی رانوں سے وجود میں آئے ہیں۔

شودر:سب سے آخر میں شودروں کا نمبر آتا ہے جو براہما کے پیروں سے بنے ہیں اور وہ ہاتھوں سے کرنے والے کام اختیار کرتے ہیں۔

ان ذاتوں کو تین ہزار مزید ذاتوں اور ذیلی  ذاتوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جس کا بنیاد مخصوص پیشوں پر ہوتی ہے۔

اچھوتوں یا دلتوں کا شمار ہندو ذات پات کے نظام سے باہر سمجھا جاتا ہے۔

ذات پات کا نظام کیسے کام کرتا ہے؟

صدیوں تک ذات پات ہی ہندو مذہب اور سماجی زندگی کے ہر پہلو بنیاد رہی ہے اور اس پیچیدہ نظام میں ہر گروپ کی اپنی مخصوص جگہ برقرار رہی ہے۔

دیہی آبادی کی ترتیب خاص طور پر ذات پات کی بنیاد پر ہوتی رہی ہے اور اونچی اور نچلی ذاتوں کے لوگ بالکل علیحدہ دائروں میں زندگیاں بسر کرتے رہے ہیں۔ ان کے پانی کے کنوئیں علیحدہ رہے ہیں، برہمن شودروں کے ساتھ نہ کھانا کھا سکتے تھے نہ پانی پی سکتے تھے اور بچوں کی شادیاں بھی اپنی ذات کے اندر ہی کی جاتی رہی ہیں۔

روایتی طور پر اونچی ذات کے ہندوؤں کو بہت سے صوابدیدی اختیار حاصل رہے ہیں جبکہ نچلی ذات کے ہندوؤں پر طرح طرح کی پابندیاں کا سامنا رہا ہے۔

بھارت میں ذات پات کے نظام کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

تقسیمِ ہند کے بعد سے ڈاکٹر امبیدکر ،کے لکھے  گئے ہندوستانی آئین میں ذات پات کی بنیاد پر تفریق پر پابندی عائدہے۔ تاریخی لحاظ سے ہونے والی ناانصافیوں کے ازالے کے لیے شیڈیول(نچلی) ذاتوں اور قبائل کے لیے 1950 میں حکومتی نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں داخلوں میں کوٹے کو متعارف کرایا گیا۔

سن 1989 میں دیگر پسماندہ برادریوں(او بی سی) کو بھی اس کوٹے میں شامل کر دیا گیا تاکہ اونچی ذاتوں کے مقابلے میں ان کی پسماندگی کو ختم کرنے میں مدد ملے۔

حالیہ دہائیوں میں سیکولر تعلیم کے فروغ اور شہری زندگی میں ترقی کے باعث ذات پات کے اثر میں کسی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ اس میں شہروں میں رہنے والی آبادی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کیوںکہ شہروں میں مختلف ذاتوں سے تعلق رکھنے والے ہندو ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور ایک ذات کے نوجوانوں کی دوسرے ذات میں شادیاں عام ہیں۔

کئی جنوبی ریاستوں اور بہار میں سماجی اصلاح کی تحریکوں کے اثر میں ذات پات کی نشاندہی کرنے والے ناموں کا استعمال بند کر دیا ہے۔

کیا بھارت میں نچلی ذاتیں خوشحال ہیں؟

لیکن ان تبدیلیوں کے باوجود ذات پات کی بنیاد پر شناخت ابھی میں مضبوط ہے اور خاندانی نام ہمیشہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ کوئی شخص کس ذات سے تعلق رکھتا ہے۔
ہندو معاشرے میں دیہی آبادیوں کی ترتیب اسی ذات پات کے نظام پر ہی ہوتی ہے۔ ہر طبقہ کی ایک مخصوص جگہ اور کام ہے۔ اونچی ذات کے ہندووں کو بے شمار مراعات حاصل ہوتی ہیں۔ وہ جو چاہے کرتے پھریں انہیں سات خون معاف ہوتے ہیں۔ جبکہ نچلی ذات کے ہندووں کے حصے میں صرف گالیاں، جھڑکیاں اور پابندیاں ہی آتی ہیں۔ نچلی ذات کے ہندو بالکل الگ تھلگ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کے پانی کے کنوئیں ، کھانے کے برتن غرض ہر چیز علیحدہ ہوتی ہے۔ برہمن شودروں کے ساتھ نہ تو رہ سکتے ہیں اور نہ ہی کھااور پی سکتے ہیں۔ ان کی شادیاں بھی صرف اپنی ذات اور برادری میں ہی ہوتی ہیں۔
دلت طبقہ اس ذات پات کے نظام میں سب سے آخر میں آتا ہے بلکہ بعض برہمن یا اونچی ذات کے ہندو تو ان دلتوں کو ذات پات کے نظام میں شامل ہی نہیں کرتے۔ معاشرے میں ہر قسم کی برائیاں، پابندیاں، مشکلات صرف ان کے حصے میں آتی ہیں۔ ان کو سب سے نیچ کام کرنے کو دیے جاتے ہیں۔ اس طبقے کو اچھوت بھی کہا جاتا ہے۔ اس طبقے نے اسی امتیازی سلوک کے خلاف ایک پٹشن بھی دائر کی۔
اعلیٰ ذات کے ہندووں کے پرتشدد رویے کے باعث بھارت میں نچلی ذات کے ہندو تیزی سے دیگر مذاہب میں داخل ہورہے ہیں جن میں سب سے زیادہ افراد اسلام کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ بھارت کی ایک ارب 20 کروڑ کی آبادی میں 84 فیصد ہندو ہیں اور اب بھی طبقات میں تقسیم ہیں جب کہ دلت (نچلی ذات) یا شودر بھارتی کچرا اٹھانے اور صفائی وغیرہ کے کام کررہے ہیں اور اسی بنا پر ان کی بڑی تعداد اسلام کی جانب مائل ہورہی ہے اور اس کے علاوہ ان کی تعداد سکھ اور عیسائیت کی جانب بھی راغب ہورہی ہے۔
موجودہ بی جے پی حکومت ہندوستان میں بسنے والی تمام اقلیتوں بشمول نچلی ذات کے ہندووں کو تحفظ دینے میں ناکام ہو چکی ہے۔ روزانہ ہی مسلمانوں، عیسائیوں ، پارسیوں یہاں تک کہ نچلی ذات کے ہندووں (دلت) کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ستم یہ کہ یہ سب کچھ سرکار کی مرضی سے ہو رہا ہے۔ انتہا پسند ہندووں کی اس درندگی سے تنگ آکر اقلیتی لوگ دوسرے ممالک میں ہجرت کر رہے ہیں اور جو غریب دوسرے ممالک میں نہیں جا سکتے وہ اقلیتی لوگ خصوصاً نچلی ذات کے ہندو (دلت) اپنا مذہب تبدیل کر رہے ہیں۔ جس کی مثال بھارتی گجرات کے قصبے اونا کے نواحی گاوںسمدھیالہ میں ذات پات کی بنیاد پر تفریق اور تشدد سے تنگ آکر 300 ہندووں نے اپنے مذہب کو چھوڑ کر بدھ مذہب کو اختیار کر لیا۔