دیکھے تُو زمانے کو اگر میری نظر سے

چھوٹے سے بچے نے بہت بڑی بات کہہ دی۔ ہم دونوں حیرانی سے ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ ہوا کچھ یوں کہ میں اپنے ایک دوست کی تقریبِ ولیمہ میں شرکت کے لیے جارہا تھا۔ہم دونوں کے مشترکہ دوست بھی ہمراہ تھے۔ انجان رستے پر وہ یاد گار سفر، لوحِ دل پر تا دیر ثبت رہے گا۔ لاری براستہ ساہیوال، بورے والا کی جانب رواں دواں تھی۔ ہماری نشست کے برابر والی نشست پر وہ بچہ اپنے والدین کے ساتھ بیٹھا تھا۔ ان کے پاس سامان تھا اور ہم خالی ہاتھ۔ میرے ہم نشیں نے والدین کی رضامندی سے بچے کو اپنی گود میں بٹھا لیا۔ بچے تو پیارے ہوتے ہیں۔ معمول کے مطابق اُس سے پوچھ گچھ شروع ہوگئی۔ نام کیا ہے، کون سی کلاس میں پڑھتے ہو، وغیرہ وغیرہ…. ان دنوں سکولوں میں سالانہ امتحان ہوچکا تھا اور نتیجہ آیا ہی چاہتا تھا۔ جب پوچھا گیا: اِس سال کون سی پوزیشن حاصل کرو گے، تو بچے کا جواب تھا:ٹیچر نے ٹھیک سے پڑھایا ہوتا تو کوئی پوزیشن لیتا ناں….  جی ہاں ہم سے بحیثیت ِ مجموعی کوئی بھول ہوئی ہے۔ شاید اساتذہ کی بڑی تعداد اپنی ذمہ داری سے انصاف نہیں کر پاتی۔ اسی طرح طلبا بھی کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔لہٰذا بڑے پیمانے پر اصلاح کی ضرورت ہے۔

اس میں کلام نہیں کہ اساتذہ قوم کے معمار ہوتے ہیں۔ان کے ہاتھوں لگنے والے بیج برگ وبار بھی لاسکتے ہیں اور جھاڑ جھنکار کا روپ بھی دھار سکتے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک اچھا انسان بنانا بھی استاد کاکام ہونا چاہیے،بلکہ وہ تعلیم ہی کیا جو انسان کو 'انسان' نہ بنا سکے اور اسے معلم کیوں کر کہاجائے جو تعمیرِ جہاں از تعمیرِ انساں میں یدِ طولیٰ نہ رکھتا ہو۔ وطنِ عزیز کے تعلیمی اداروں میں مختلف نظریات کا پرچار کیاجارہا ہے جن کا تدارک کیاجانا از حد ضروری ہے۔ ایسے میں ایک بامقصد اور مخلص طبقہِ اساتذہ جو کردار ادا کرسکتا ہے یقینا معاشرے کاکوئی دوسرا طبقہ(بشمول حکمرانوں کے کہ دورِ حاضر میں وہ تو محض حکم ہی دیتے ہیں)نہیں کرسکتا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ "ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہونا چاہیے۔شریعت کی رُو سے تصورِ قومیت کیا ہوا؟ قانون کا ماخذ کیا ہوگا؟ قرآن کی اصل حیثیت کیا ہے؟ آزاد قانون سازی ہونی چاہیے۔ پاکستان نظریاتی ہے یا جغرافیائی؟"

اعتراضات کی اس فہرست میں آئے دن اضافہ ہوتاجاتا ہے۔

خود کو تہذیب و تمدن اور ترقی کا دوسرا نام قرار دینے والے عقل سے بھی کم کم ہی کام لیتے ہیں۔ان کے ہاں مروجہ اصولوں کے مطابق کوئی کام سرانجام نہیں پاسکتا جب  تک کہ اسے موزوں ترتیب اور نظم وضبط سے نہ  کیا جائے ۔ مثال کے طور پر ایک کارخانے ہی کو لے لیجیے۔ اُس میں مجلسِ منتظمہ ہوتی ہے، جس کا کوئی صدر بھی ہوتا ہے۔ اِسی پر اکتفا نہیں کیاجاتابلکہ مختلف شعبوں کے ماہرین خطیر رقم پر ملازم رکھے جاتے ہیں۔ پھر مستزادیہ کہ دنیا بھر میں شائع ہونے والے مواد سے استفادہ کیاجاتا ہے تاکہ جو آلات استعمال کیے جائیں، زیادہ سے زیادہ سود مند ثابت ہوں۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کیجیے کہ دنیا کاایک کارخانہ اتنی تگ وتاز سے چلتا ہے تو کیا انسانی زندگی کا کارخانہ متقاضی نہیں کہ اُسے منظم انداز سے استوار کیاجائے۔ہاں اسی لیے اس بہت بڑی کائنات کا ایک خالق ہے اور وہی تمام تر اختیارات کا یکتا وتنہا مالک ومربی ہے۔ انسانوں کی کثیر آبادی کو اُسی نے شعوب وقبائل میں بانٹ دیا ہے۔جب مالک وہ ہے تو حکم بھی اُسی کا چلنا چاہیے۔اُسی نے اسلام کی صورت ایک مکمل اور متوازن ضابطہ حیات دیا ہے۔قرآن بھی اُسی کانازل کردہ ہے جو انسان جیسی پیچیدہ مخلوق کے لیے کتابِ رُشد وہدایت ہے۔ ایک اسلامی ریاست کی تشکیل اور اُس کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کا لائحہ عمل ہی پاکستان کامقصدِ وجود وبقا ہے۔

اسلام کا تصور ِ قومیت، نام نہاد روشن خیال نقاد ِمغرب سے یکسر مختلف ہے۔وہ عوام کو طاقت کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں۔ عوام کو اکثریت جو فیصلہ کردے، وہی قانون ٹھہرتا ہے۔انسانی عقل ہی کُل قرار پاتی ہے۔ اِس کے برعکس، شریعتِ مطہرہ نے کچھ حدود مقرر کردی ہیں۔ اِن حدود کے اندر رہتے ہوئے قانون سازی کی جاسکتی ہے۔میں پھر ایک مثال دوں گا تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو۔ گرمی کاموسم ہواور کہیں کوئی اجتماع ہورہا ہو۔ منتظمین کو حاضرین کی پیاس کچھ پلانے پر مجبور کردے۔ اگر وہ رائے لیں کہ حاضرین کی اکثریت لسی پینا چاہے گی یا مشروب۔ اکثریت کہے کہ انہیں مشروب پلایا جائے تو منتظمین کو چاہیے کہ مشروب کا اہتمام کریں، بھلے اس پراُن کا جتنا بھی خرچ آئے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو منتظم کس بات کے ہیں…..اگر منتظمین حاضرین کو شراب پلانا چاہیں تو اُنہیں کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ ایسا کریں چاہے حاضرین کی سوفیصد رائے اس کے حق میں ہو۔