عشق را سرمایۂ ایماں علی

خلیفۂ راشد سیدنا علی بن ابی طالبؓ کی  شجاعت تو لائقِ ذکر ہے  ہی ،  مگر  کرم بھی  آپ کی حیاتِ طیبہ میں اپنے کمال  پر  دیکھا گیا ہے۔جب خوارج نے ان پر حملہ  کیا گیااور عبالرحمٰن بن ابنِ ملجم جب آپ پر مہلک وار کرنے میں کامیاب ہو گیا  تب بھی ابنِ ملجم کی گرفتاری پرسیدنا علی المرتضیٰ نے یہی فرمایا:

أَطْعِمُوهُ، وَاسْقُوهُ، وَأَحْسِنُوا أَسَارَهُ،فَإِنْ عِشْتُ فَأَنَا وَلِيُّ دَمِي، أَعْفُو إِنْ شِئْتُ، وَإِنْ شِئْتُ اسْتَقَدْتُ، وَإِنْ مُتُّ فَقَتَلْتُمُوهُ فَلَا تُمَثِّلُوا

ترجمہ: اس کو کھلاؤ، پلاؤ اور اچھا سُلوک کرو۔ اگر میں زندہ رہا تو اپنے خون کا معاملہ میرے ذمے ہے، میں چاہوں تو معاف کردوں یا چاہوں تو(جروحاتِ قصاص کے طور پر) بدلہ لے لوں۔اور اگر میں مرجاؤں تو اس کو قتل کرو مگر اس کے جسم کی بے حرمتی نہ کرنا!

[مسند الشافعي، صفحہ نمبر ۳۱۳]

انہوں نے ہی  روزِ جمل فرمایا:

لَا يُتْبَعُ مُدْبِرٌ وَلَا يُذَفَّفُ عَلَى جَرِيحٍ , وَلَا يُقْتَلُ أَسِيرٌ , وَمَنْ أَغْلَقَ بَابًا فَهُوَ آمِنٌ , وَمَنْ أَلْقَى سِلَاحَهُ فَهُوَ آمِنٌ , وَلَمْ يَأْخُذْ مِنْ مَتَاعِهِمْ شَيْئًا

ترجمہ: کسی بھاگنے والے کا تعاقب نہ کیا جائے، کسی زخمی کو قتل نہ کیا جائے، کسی قیدی کو قتل نہ کیا جائے، جس نے اپنا دروازہ بند کرلیا تو وہ امان میں ہے۔ جس نے ہتھیار ڈال دیے تو وہ امان میں ہے۔ اور ان کے مال و متاع میں سے کوئی چیز نہیں لی جائے گی۔

[مصنف ابن ابي شيبة، جلد ۷، صفحہ نمبر ۵۴۳]

صفین کے ایام میں جب بھی کوئی قیدی آتا تو آپؓ فرماتے:

لَنْ أَقْتُلَكَ صَبْرًا , إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ: میں تم کو  قیدی بنا کر قتل نہیں کروں گا، مجھے اللہ تمام جہانوں کےپروردگار سے ڈر لگتا ہے۔

[مصنف ابن أبي شيبة، جلد ۷، صفحہ نمبر۵۴۹، رقم:۳۷۸۶۱]

امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان پر پورا باب باندھا ہے ۔ جبکہ  بغاوت کے معاملے کے فقہی مسائل حضرتِ علیؓ کی سیرت اور آپ کے عہدِ خلافت سے اخذ کیے گئےہیں۔