توہین رسالت کی سزا: فقہی اور قانونی پہلو

الحمد للہ وکفیٰ وسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ،أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ- فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ-

 

فقہی پہلو : توہین رسالت کے متعلق کسی کیس کے سامنے آتے ہی ہمارے ہاں غیر مسلم شاطم رسول کی سزا اور اس مسئلے سے متعلق دیگر فقہی مباحت غیر ضروری طور پر چھیڑ دی جاتی ہیں ۔ اس ضمن میں ملکی قوانین کیا کہتے اس کی وضاحت علماء اور قانون دان طبقہ کر چکا ہے ۔ احناف کے نزدیک ذمی کی سزا سے ذمہ Covenant of Protection نہیں ٹوٹتا لیکن تعزیر کی سزا  دی جائیگی . تعزیر کی سزا حاکم وقت کا اختیار ہے جو کہ سزائے موت بھی ہو سکتی ہے. یہ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا موقف ہے. لیکن فقہ حنفیہ میں یہ مسئلہ اختلافی ہے۔

. 1. عثمانی سلطنت کے مشہور حنفی فقیہ خیر الدين الرملی نے ذمی (کافر) سے گستاخی کی صورت میں سزا، سزائے موت ہونے کی بابت لکھا ہے کہ ذمی کا ذمہ نہیں ٹوٹتا ہے البتہ سزائے موت دینے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔

 2. مشہور حنیفی فقیہ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے شاگر قاضی ثناء اللہ پانی پتی صاحب بحر محیط کے حوالے سے لکھتے ہیں : "جو شخص نبی اکرم ﷺ کے شان میں گالم گلوچ کرتا ہے یا ان کی توہین کرتا ہے یا کسی مذہبی معاملے میں اس کی بے عزتی کرتا ہے یا ان کی جسمانی صورت اور اپنی عمدہ شخصیت کی بات کرتا ہے ، چاہے وہ مومن ہو یا (کافر) ذمی ہو یا کوئی حاربی ، خواہ وہ مزاح کی بنا پر ایسا کرے ، موت کے قابل ہے ، اور اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی۔ اور اسی پر ہم امت کا اجماع ہے۔ حوالہ ما لا بد منه - قاضی ثناء اللہ پانی پتی۔

3. قاضی ثناء اللہ پانی پتی کا یہ فتویٰ اصل میں فتاویٰ برہانی سے ماخوذ ہے. فتاویٰ برہانی چھٹی صدی ہجری کے مشہور حنفی مجتہد امام محمود بن احمد رح کی مجموعہ فتاویٰ ہے، یعنی چھٹی ہجری سے احناف کا موقف اس معاملے پر وہی ہے جو آج بیان کیا جاتا  ہے۔

 4. مولانا اشرف علی تھانوی رح سے توہین رسالت کے مرتکب ایسے غیر مسلم کے بارے میں پوچھا گیا جس نے معافی مانگ لی تھی اور آئندہ احتیاط برتنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں مسلم برادری میں تنازع پیدا ہوا کہ آیا اس کا عذر قبول کیا جانا چاہئے۔ جب ان سے رائے پوچھی گئی تو ، اشرف علی تھانوی نے جواب دیا کہ یہ حقیقت میں صلح کا معاملہ ہے (اور چونکہ مسلمان اقتدار میں نہیں ) توہین رسالت کرنے والے کو "موت "کی سزا دینا ناممکن ہے اور زیادہ تر جرمانہ یا قید کی سزا دی جائے گی۔ قانونی کارروائی کے ذریعے۔ لہذا ،' مسلم حکمرانی کی عدم موجودگی میں مسلمان مجرم کی معافی قبول کر سکتے ہیں اور صلح کر سکتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ تھانوی رحمہ اللہ کے مطابق مسلم حکومت کے تحت توہین رسالت کے غیر مسلم مرتکب کے سزا بھی سزائے موت ہے۔ امداد الفتوٰی - مولانا اشرف علی تھانوی رح۔

5.خلافت بنو عباس، خلافت عثمانیہ اور ہندوستان میں ہزار سال سے زائد عرصہ تک فقہ حنفیہ بطورِ قانون شریعت نافذ رہا. توہینِ رسالت کا ارتکاب کرنے والا خواہ غیر مسلم ہو یا مسلمان، مفتیان اور قاضی حضرات نے ہمیشہ اس شخص کے قتل کا ہی فیصلہ دیا ہے. حتی کے شہنشاہ بابر، جو کہ سیکولرز اور لبرلز کا پسندیدہ ہے، کے دور میں بھی ایک غیر مسلم کو گستاخی کا مرتکب ہونے پر سزائے موت ہی دی گئی.

 

قانونی پہلو:

1. 1991 تک پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 سی کے تحت توہین رسالت کی تمام مجرمین، خواہ غیر مسلم ہوں یا مسلم ان کی سزا سزائے موت یا عمر قید مقرر تھی۔

. 295-C. Use of derogatory remarks, etc., in respect of the Holy Prophet: Whoever by words, either spoken or written, or by visible representation or by any imputation, innuendo, or insinuation, directly or indirectly, defiles the sacred name of the Holy Prophet Muhammad (peace be upon him) shall be punished with death, or imprisonment for life, and shall also be liable to fine. 2.

پاکستان کے مزہبی طبقہ کی اکثریت اس بات پر اصرار کرتی رہی ہے کہ توہینِ رسالت کی سزا صرف سزائے موت ہونے چاہیے. 3. 1990 میں فیڈرل شریعت کورٹ نے حکم دیا کہ عمر قید کی سزا اسلامی قوانین سے متصادم ہے لہٰذا

 mandatory death penalty

ہی تمام گستاخان رسول کی سزا ہوگی. 4. فیڈر شریعت کورٹ کا فیصلہ کا خلاصہ

In 1990, responding to a petition demanding mandatory death penalty in cases of blasphemy against the Prophet Muhammad under section 295-C, the Federal Shariat Court ruled: 30 The death penalty under 295-C was mandatory as the “alternate punishment of life imprisonment as provided in section 295-C…is repugnant to the Injunctions of Islam” and Parliament should delete the option of life imprisonment from the provision; 295-C should be amended to make “the same acts or things when said about other Prophets, also an offence with the same punishment as suggested above”; and Blasphemy under section 295-C was an “intentional or reckless wrong”, and required the requisite mens rea of “intention, purpose, design, or at least foresight.” 5.

حکومت پاکستان ٣٠ اپریل 1991 تک فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتی تھی. چونکہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایسی کوئی اپیل دائر نہیں ہوئی لہذا آئینِ پاکستان کے تحت 295 سی کے تحت جرم ثابت ہونے پر ملزم کو سزائے موت ہی دی جائے گی. بالفرض اگر توہین رسالت کی سزا کو تعزیری سزا بھی مان لیا جائے ، جو حاکم اپنی مرضی سے نافذ کرتا ہے، تب بھی اس کا نفاذ دو طرح سے ممکن ہے ۔ایک حاکم وقت کے زریعے یا پارلیمانی اداروں کے زریعے . اس صورت میں پاکستان کی پارلیمنٹ اور ریاست پاکستان پر ہی حاکم وقت کا اطلاق ہوگا، پارلیمنٹ اور آئین پاکستان کے تحت اس جرم قبیح کی سزا، سزائے موت مقرر ہو چکی ہے اس لیے اس پر کسی قسم کا شرعی اور فقہی اعتراض یا بحث نا صرف غیر ضروری ہے بلکہ عوام کے اندر شکوک و شبہات کا باعث ہے